کسان کا نوحہ

April 30, 2024

گندم کی فصل مارکیٹ میں آنے کو تیار ہے لیکن گندم اگانے والا کسان بدحالی کے ہاتھوں مجبور ہو کر بے بسی کی عملی تصویر بن چکا ہے۔زراعت کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک کرنے میں کوئی حکومت بھی پیچھے نہیں رہی،دنیا کے بڑے نہری نظام کی موجودگی میں وطن عزیز کی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں، سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے ہماری زراعت تباہی کا شکار ہو چکی ہے، سونا اگلنے والی زمینیں ویران ہیں، آبی ذخائر تعمیر نہیں کیے جا رہے، کالا باغ ڈیم سیاست کی بھینٹ چڑھ چکا ہے، بھارت نے ہمارے حصے کے پانی پر سینکڑوں ڈیم تعمیر کر لیےہیں لیکن ہمارے کسی حکمران کی اس طرف توجہ نہیں کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پاکستان کو بوند بوند کا محتاج کرنے کا جو منصوبہ بنایا ہے اسکے سامنے کوئی رکاوٹ پیدا کی جا سکے۔ماضی کے پاکستانی واٹر کمشنر پاکستان سے زیادہ بھارت کی وکالت کرتے دکھائی دیتے تھے۔اب تو کئی نہریں جو سالانہ بہتی تھیں وہ ششماہی ہو چکی ہیں اور چھ ماہ بہنے والی نہریں کئی ماہ سے پانی کی راہ تک رہی ہیں۔گزشتہ دو سال میں بدترین سیلاب نے ملکی زراعت کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔تباہ حال کسان کھاد اور بیج خریدنے کی طاقت سے محروم ہے اور اگر اسے کھاد خریدنی پڑے تو بھکاریوں کی طرح لائن میں لگ کر،اپنی عزت نفس داؤ پر لگا کر،سرکاری اہلکاروں کی گھرکیاں سن کر وہ کھاد خریدنے پر مجبور ہے۔زرعی تحقیقی اداروں کی جانب سے 75 سال میں اربوں روپے کے فنڈز فراہم کرنے کے باوجود زراعت کی بہتری کیلئے کوئی ایک بھی قابل ذکر منصوبہ نظر نہیں آیا۔ساہو کاروں، سود خوروں، کھاد مافیا، ڈیزل مافیا نے مل کر پاکستانی کسان کا بھرکس نکال دیا ہے، قدرتی آفات، موسمیاتی تبدیلیوں، بارشوں اور سیلابوں نے اس کی رہی سہی مالی ساکھ مٹی میں ملا دی ہے۔جو کسان اپنی پکی ہوئی گندم کی فصل پر سونے کی بھی ایک بوند تک برداشت نہیں کرتا تھا آج اس کی سونے جیسی فصل پانی میں تیر رہی ہے اور وہ بے بس بیٹھا اپنی تباہی کا منظر دیکھ رہا ہے۔جس فصل کے آنے کی امید میں، اس نے اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات کا اہتمام کرنے کا سوچ رکھا تھا یا مکان کی تعمیر کا ارادہ اپنے ذہن میں بنا رکھا تھا، امیدوں کے سارے گھروندے اس کے سامنے پانی میں بہہ گئے ہیں اور وہ سر پہ ہاتھ رکھ کر اپنے خوابوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے بارش کے پانی میں بہتا ہوا دیکھ رہا ہے۔

کپاس جو کبھی پاکستانی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی تھی اور جسے سفید سونا کہا جاتا تھا یہ سفید سونا ہمارے مفاد پرست حکمرانوں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے اور مخصوص منصوبہ بندی کے تحت کپاس کی پیداوار والے علاقوں میں شوگر ملیں لگا کر کپاس کی فصل کو سرے سے ختم ہی کر دیا گیا ہے۔بطور زرعی ملک پاکستان کا بیشتر انحصار گندم کی پیداوار پر ہے۔ایک ایسا ملک جس میں بھوک کے شکار افراد کی تعداد 45 فیصد تک بڑھ گئی ہے وہاں پر گندم کے ساتھ ناروا سلوک سمجھ سے بالاتر ہے۔بھوک کا بحران صرف پاکستان کیلئے نہیں دنیا بھر کیلئے ایک چیلنج بن کر سامنے آیا ہے لیکن ہمارے حکمران اس اہم مسئلے کی طرف یوں پیٹھ کیے ہوئے ہیں جیسے کہ یہ مسئلہ،مسئلہ ہی نہیں۔پنجاب حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت 3900 روپے فی من جبکہ سندھ میں 4000 روپے فی من مقرر کی گئی ہے لیکن مارکیٹ میں گندم کی قیمت 3200 سے 3600 روپے فی من ادا کی جارہی ہے اور مڈل مین فائدہ اٹھا رہا ہے۔گزشتہ نگران حکومت نے ملک میں 40 لاکھ ٹن گندم کی دستیابی کے باوجود یوکرائن سے 31 لاکھ ٹن گندم منگوا لی۔اس مافیا نے کسان دشمنی کرتے ہوے مقامی گندم کی قیمت 4600 روپے فی من مقرر کردی جبکہ یوکرائن کی گندم 3100 روپے فی من دستیاب رہی۔اتنے بڑے بلنڈر پر انکوائری کرنے کے بجائے حکومت نے خریداری کا ٹارگٹ ہی کم کر دیا۔گزشتہ سال 60 لاکھ ٹن گندم خریدی کی گئی جبکہ اس سال 20 لاکھ ٹن گندم خریداری کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔باقی گندم کیلئے کسان کو،مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔حکومت نے ایک ایکڑ کے عوض کسان کو چھ بوریاں باردانہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔جبکہ گندم کی فی ایکڑ پیداوار اس سے کہیں زیادہ ہے یوں ایک مرتبہ پھر غریب کسان کوبلیک مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔محکمہ زراعت کے بابوئوں کے مطابق اس سال صوبے میں ایک کروڑ 74 لاکھ ایکڑ رقبے پر گندم کی فصل اگائی گئی جو گزشتہ سال سے 12لاکھ ایکڑ زیادہ ہے اور پیدوار کا تخمینہ ایک کروڑ تیس لاکھ ٹن ہے۔لیکن دفتر میں بیٹھے ہوئے بابو یہ نہیں بتاتے کہ پچھلے سال مکئی میں ہونے والے نقصانات کے نتیجے میں اس سال مکئی کی کاشت میں 40فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ دیگر فوڈ کراپس کی کاشت میں بھی 35فیصد تک کمی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں زیادہ رقبے پر گندم کاشت کی گئی ہے۔اگر گندم کے ساتھ یہی سلوک جاری رہا تو آئندہ سال گندم کی کاشت میں بھی تشویش ناک کمی ا ٓسکتی ہے۔تباہ حال زرعی انفراسٹرکچر کو دوبارہ بحال کرنا، کسانوں کی معیشت کو درست کرنا محض اب کسان کے بس کی بات نہیں پوری ریاستی مشینری جب تک اس حوالے سے متحرک کردار ادا نہیں کرے گی کاشتکار کی کمر سیدھی ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

تعزیت۔

ہمارے مہربان ساتھی روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحہ کے روح رواں سید حیدر تقی کی وفات پر ازحد دکھ ہے۔اللہ کریم انکی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر عطا فرمائے آمین۔