قومی اسمبلی نے مالیاتی ضمنی بل 2021 منظور کرلیا

January 13, 2022


قومی اسمبلی نے مالیاتی ضمنی بل 2021 کثرت رائے سے منظور کرلیا، بل میں اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کردی گئیں۔ اسٹیٹ بینک ترامیم بل بھی منظور کرلیا گیا ہے، جس پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔

قومی اسمبلی میں ضمنی بجٹ کی منظوری کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔

قومی اسمبلی میں اسٹیٹ بینک ترمیمی بل بھی منظوری کے لیے پیش کیا، وزیرخزانہ شوکت ترین نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا۔ اپوزیشن کی جانب سے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی شدید مخالفت کی گئی۔

وزیر خزانہ شوکت ترین نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کیا ہاتھ کاٹ دیے ہیں؟، ہمارے پاس اسٹیٹ بینک کو چلانے کی پوری اتھارٹی ہوگی۔

شوکت ترین نے کہا کہ سابق حکومتوں نے ساڑھے سات ٹریلین روپے کے نوٹ چھاپے، اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف گورنرز کی تعیناتی حکومت کرے گی۔

اس موقع پر مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما احسن اقبال نے اسپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے درخواست ہے بل پر ہر رکن کو بات کرنے کا موقع دیں۔

احسن اقبال نے کہا کہ آپ سے التجا کرتا ہوں کل اس بل پر پورا دن بحث کریں، ہم اسٹیٹ بینک کی خود مختاری پر سودا نہیں ہونے دیں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل ملکی مفاد میں ہےتو رات کی تاریکی میں کیوں منظور کیا جارہا ہے، ہم اپنی معیشت کا پورا نظام تبدیل کرنے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ابھی سال میں چار مرتبہ رپورٹ دیتا ہے، بل کی منظوری کے بعد اسٹیٹ بینک سے پالیسی پر سوال نہیں کیا جاسکے گا۔

نوید قمر نے کہا کہ اس بل کی منظوری سے ہم قومی سلامتی پر سمجھوتہ کرنے جارہے ہیں۔ ہم ہنگامی صورتحال میں اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لے سکیں گے۔

اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت اس اجلاس میں وزیراعظم ایوان میں پہنچے تو حکومتی اراکین ڈیسک بجا کر ان کا خیرمقدم کیا۔

وزیراعظم عمران خان کی آمد پر اپوزیشن اراکین کی جانب سے شدید نعرے بازی کی گئی۔

ضمنی مالیاتی بل کی شق پر اپوزیشن کی ترامیم مسترد کردی گئیں۔

اپوزیشن کی ترامیم کے حق میں 150 ووٹ جبکہ اپوزیشن کی ترامیم کی مخالفت میں 168 ووٹ آئے، یوں قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی ترامیم کثرت رائے سے مسترد ہوگئیں۔

وزیر خزانہ شوکت ترین نے ضمنی مالیاتی بل 2021 ایوان میں منظوری کے لیے پیش کرتے ہوئے کہا کہ فنانس بل پر اپوزيشن کا واوایلا بےبنیاد ہے۔

اپوزیشن رہنما محسن داوڑ، شاہد خاقان عباسی اور نوید قمر کی ترامیم مسترد کردی گئیں۔

بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ایوان میں منی بجٹ پر ترامیم پیش کی گئیں۔

چیئرمین پی پی پی کی ترامیم میں کہا گیا کہ نان، تندور، چپاتی، بند، رس اور ریسٹورنٹس پر ٹیکس واپس لیا جائے۔

ان میں یہ بھی کہا گیا کہ ملٹی میڈیا اور لیپ ٹاپ کی درامد پر ڈیوٹی ختم کی جائے۔

وزیر خزانہ کی شوکت ترین کی یقین دہانی پر ایم کیو ایم پاکستان نے اپنی ترامیم واپس لے لیں۔

اس موقع پر حکومت کے پاس ایوان میں منی بجٹ کی منظوری کے لیے 18 ارکان کی اکثریت موجود تھی۔

قومی اسمبلی ایوان اس وقت 342 ارکان پر مشتمل ہے، حکومت کے پاس 182 ارکان جبکہ اپوزیشن کے پاس 160 ارکان ہیں، اپوزیشن کے 10 اور حکومت کے 14 ارکان ایوان سے غیر حاضر رہے۔

کس چیز پر کتنا ٹیکس لگا؟

مجوزہ ترامیم کے مطابق 500 روپے مالیت کے 200 گرام دودھ کے ڈبے پر جی ایس ٹی نہیں ہوگا، 500 روپے سے زیادہ مالیت کے فارمولا دودھ پر 17 فیصد جی ایس ٹی لگے گا۔

دستاویز اسی طرح درآمدی گاڑیوں پر ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے، درآمدی گاڑیوں پر تجویز کردہ 5 فیصد کے بجائے 12.5 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔

مجوزہ ترامیم کے مطابق تمام درآمدی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بدستور قائم رہے گی، مقامی طور پر تیار کردہ 1300 سی سی کی گاڑی پر ڈھائی فیصد ڈیوٹی عائد کردی گئی۔

اس سے پہلے 1300 سی سی کی مقامی گاڑی پر 5 فیصد ڈیوٹی لگانے کی تجویز تھی۔

اسی طرح 2000 سی سی تک مقامی گاڑی پر 10 کے بجائے 5 فیصد ڈیوٹی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، 2001 سی سی سے اوپر کی مقامی گاڑی پر 10 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

بچوں کے فارمولا دودھ پر جی ایس ٹی میں رعایت کر دی گئی ہے، لال مرچ اور آئیوڈین ملے نمک پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا۔

اسٹیٹ بینک ترمیمی بل بھی منظور

قومی اسمبلی نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل بھی منظور کرلیا، اپوزیشن نے اس بل کی منظوری پر شدید احتجاج کیا۔

وزیر خزانہ شوکت ترین نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کیا ہاتھ کاٹ دیے ہیں؟، ہمارے پاس اسٹیٹ بینک کو چلانے کی پوری اتھارٹی ہوگی۔

شوکت ترین نے کہا کہ سابق حکومتوں نے ساڑھے سات ٹریلین روپے کے نوٹ چھاپے، اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف گورنرز کی تعیناتی حکومت کرے گی۔

اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما احسن اقبال نے اسپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے درخواست ہے بل پر ہر رکن کو بات کرنے کا موقع دیں۔

اپوزیشن نے احتجاج کرتے ہوئے بلوں کی کاپیاں پھاڑ کر ایوان میں اچھال دیں، اس کے بعد ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اجلاس ملتوی کردیا۔