خوش فہمی میں مبتلا رہنا اچھا لگتا ہے

January 18, 2022

زندگی ایسی خوش فہمیوں میں غرق رہتے ہوئے تقریباً گزر چکی ہے، جو خوش فہمیاں آگے چل کر غلط فہمی میں بدل جاتی ہیں۔ تب ہم محسوس کرتے ہیں کہ جسے ہم خوش فہمی سمجھتے تھے، وہ ہماری غلط فہمی ہوتی تھی۔ ہم چڑھتے سورج کی سلامی بھرتے تھے۔ وہی سورج جب ڈھلنے لگتا تھا اور شام ہوتے ہوتے ڈوب جاتا تھا، تب ہماری خوش فہمی کافور ہو جاتی تھی… ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے تھے کہ ہر عروج کے نصیب میں زوال لکھا ہوا ہوتا ہے۔ کوئی حاکم روز آخر تک حاکم نہیں رہتا۔ ویسے بھی غلط فہمی میں مبتلا رہنا انسان کی فطرت میں شامل ہوتا ہے۔ لگا تار غلط فہمیوں میں مبتلا رہنے سے زندگی آسانی سے کٹ جاتی ہے۔ ملازمت سے نکال دیے جانے کے بعد ہم باور کر لیتے ہیں کہ ہم ناکارہ اور کام چور نہیں تھے۔ ظہر اور عصرکی نماز پڑھنے کا بہانہ بنا کر ہم دفتر سے اکثر غائب نہیں رہتے تھے۔ ہم چونکہ بے انتہا ذہین تھے، اس لئے لوگ ہم سے جلتے تھے۔ ہمارے خلاف باس کے کان بھرتے رہتے تھے۔ پس پردہ، کولیگ ہمارے خلاف محاذ کھڑا کر دیتے تھے۔ مہم جو ہمارے خلاف افواہوں کا جال پھیلا دیتے تھے۔ اور ایک روز ہمیں ملازمت سے فارغ کروا کر دم لیتے تھے۔ تھوڑی دیر کے لئے سوچئے اگر ہمیں نالائق اور نااہل ثابت کر کے ملازمت سے فارغ کر دیا جائے اور ہمارا ضمیر تصدیق کر دے کہ ہم بے انتہا نالائق اور نااہل تھے، تب ہم لوگوں سے منہ چھپاتے پھرتے۔ اپنی نااہلی پر نادم اور شرمندہ ہوتے۔ مرنے سے پہلے اندر سے مر رہے ہوتے۔ ایسے میں ہم خوش فہمی کا سہارا لے لیتے ہیں۔ خود کو ہم یقین دلاتے ہیں کہ فرم کے مالکان نے مجھ جیسا لائق اور قابل شخص دیکھا ہی کب تھا، وہ تو سطحی قسم کے لوگوں کو ملازمت پررکھتے ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ اس طرح ہم بیچارے ناموس کو بچا لیتے ہیں۔

پچھلے ہفتہ کا افسانہ میں نے اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہوئے ادھورا چھوڑا تھا کہ آپ افسانہ غور سے پڑھیں گے اور مجھے جج صاحب کے ممکنہ فیصلہ سے آگاہ کریں گے۔ میری خوش فہمی تب غلط فہمی میں بدل گئی جب مجھےکہیں سے ایک جواب بھی موصول نہیں ہوا۔ اس سے پہلے کہ میں مایوسی کی دلدل میں اترتا چلا جاتا میں نے خوش فہمی کا سہارا لے لیا۔ خوش فہمی نے مجھے یقین دلوایا کہ ملک میں کھانے پینے اور اوڑھنے بچھونے کی خستہ حالی ہے۔ مہنگائی نے رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دل بھی توڑ ڈالےہیں ۔ کتنی خوش فہمی تھی لوگوں کو کہ ورلڈ کپ کی طرح کپتان عمران خان سیاست کے میدان میں بھی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دےگا۔ پاکستان کو کسی بھی میدان میں ہارنے نہیں دے گا۔ حالات نے لوگوں کی خوش فہمی کو غلط فہمی میں بدل دیا ہے۔ ایسے میں کسی قاری کو کیا پڑی ہے کہ تمہارے ادھورے افسانے کو مکمل کرنےکے لئے جج صاحب کا متوقع فیصلہ لکھ کر تمہیں بھیج دے۔ میں کند ذہن پتے کی بات سمجھنے میں دیر نہیں کرتا۔ خوش فہمی کو آسانی سے غلط فہمی میں بدلنے نہیں دیتا۔ اب تو آپ بھی سمجھ گئے ہونگے کہ پریشان حال پبلک کو کہاں فرصت ملتی کہ میرا ادھورا افسانہ پڑھنے کے بعد مکمل کرتے اور جج صاحب کا متوقع فیصلہ لکھ کر مجھے بھیجتے۔ اگر حالات ورلڈ کپ جیسے ہوتے اور لگتے ہوئے چوکوں اور چھکوں پر لوگ تالیاں بجا رہے ہوتے تب جج صاحب کے ممکنہ فیصلہ کے انبار لوگ مجھے بھیج چکے ہوتے۔

چلیے ، میں آپ کو جج صاحب کا فیصلہ سناتا ہوں۔ مگر رکیے! آپ میری طرح کے بھلکڑ تو نہیں ہیں؟ پچھلے ہفتہ میں نے آپ کو خودکشی کی کوشش میں بری طرح ناکام ہونے اور پھر پکڑے جانے والے شخص کا قصہ سنایا تھا۔ عدالت میں موجود چار چشم دید گواہوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جج صاحب نے ملزم سے کہا تھا ’’ان چار وں نے تمہیں عمارت کے ساتویں فلور سے چھلانگ لگاتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘ملزم نے چشم دید گواہوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ ’’جب میں ہنر مند روز گار کے لئے دھکے کھا رہا تھا تب یہ چار چشم دید گواہ کہاں تھے؟ بیماری اور بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر جب میری بیوی نے خود کشی کر لی تھی تب یہ چار چشم دید گواہ کہا ںتھے؟‘‘

جج صاحب گردن جھکا کر کچھ دیر سوچتے رہے۔ گردن اٹھا کر عدالت میں موجود لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے جج صاحب نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ۔ ’’ملک اور معاشرے میں بدترین عدم توازن کی وجہ سے جب کوئی شخص جرم کا ارتکاب کرتا ہے، تب سزا ملزم کو نہیں، حاکم وقت کو ملنی چاہیے۔ میں حاکم وقت کو دو سال قید با مشقت کی سزا دیتا ہوں‘‘۔

یہ کہانی برطانیہ کے ایک جزیرے Isle of man کی ہے۔ آصف علی زرداری کے مشہور زمانہ سرےمحل کا قصہ تو یاد ہو گا۔ سرے محل برطانیہ کے جزیرے آئل آف مین میں بنا ہوا ہے۔ آئل آف مین میں ایک قانونی روایت چلی آرہی تھی کہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر خود کشی کی کوشش کرنے والے شخص کو سزا دینے کے بجائے بدترین حالات پیدا کرنے والے شخص یا اشخاص کوسزا دی جاتی تھی۔برصغیر کے بٹوارے سے بہت پہلے کا قصہ ہے۔ مجھے یاد آرہا ہے۔ آپ بھی سن لیجیے۔ ایک جج صاحب نے قتل کے مقدمہ میں ملزم کو سزائے موت کا فیصلہ سنانے کے بعد ملزم سے پوچھا ’’تمہیں کچھ کہنا ہے؟‘‘

ملزم نے جج سے پوچھا ۔

’’آپ مسلمان ہیں؟‘‘

جج نے کہا ’’الحمدللہ‘‘

ملزم نے کہا ’’پھر تو آپ جانتے ہونگے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔

جج صاحب نے کہا ۔ ’’اس بات میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے‘‘۔

ملزم نے کہا ’’تو پھر، میں ایک آدمی، کسی کو کیسے مار سکتا ہوں؟‘‘

اب آپ جج صاحب کے ردعمل کے بارے میں سوچتے رہئے۔ سوچنا دماغی صحت کیلئے اچھا ہوتا ہے۔