دنیا بھر کے مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کے تمام تر افراد پراپنے اثاثےاور آمدنی ظاہر کرنا اور اس پر مقررہ ٹیکس ادا کرنا لازم ہے کہ اسی صورت میں حکومتیں عوام کو سہولتیں فراہم کرکے فلاحی معاشروں کا قیام عمل میںلاتی ہیں۔افسوس کہ ہمارے ہاں معاملات اس کے بر عکس رہے اور ہیں،جس کے باعث پاکستان میں ٹیکس کلچر فروغ پا سکا اور نہ ہی ملکی معیشت کو محصولات کی صورت میں قوی سہارا میسر آپایا ۔اس ضمن میں اب اقدامات کئے جارہے ہیں اورالیکشن کمیشن نےپارلیمینٹرنز کے خلاف اثاثوں کے گوشوارے جمع نہ کرانے پر ایکشن لیتے ہوئے150 اراکین پارلیمنٹ کی رکنیت معطل کر دی ہے ۔ ان میں قومی اسمبلی کے 36 ، سینٹ کے 3 ، پنجاب اسمبلی کے69 ، سندھ اسمبلی کے 15 ، خیبر پختونخوا اسمبلی کے 21 اور بلوچستان اسمبلی کے 7 اراکین شامل ہیں، الیکشن کمیشن کے مطابق معطل اراکین کسی بھی قانون سازی میں شریک نہیں ہونگے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمانی جمہوری نظام میں پارلیمنٹ سب سے معزز اور سپریم ادارہ ہوتا ہے اور اسی نسبت سے اس کے ارکان محترم قرار پاتے ہیں ۔یہ حقیقت بھی ناقابل فراموش ہے کہ عہدہ جتنا بڑا اور اہم ہو ذمہ داری بھی اتنی ہی بڑی اور کڑی ہوتی ہے ،چنانچہ قانون سازی کا فریضہ ادا کرنے والے اراکین پارلیمنٹ کو تو عوام کے لئے رول ماڈل ہونا چاہئے تاکہ ان کی فرض شناسی کو دیکھتے ہوئے عوام کو بھی تحریک ملے اور وہ بھی نہ صرف باقاعدگی سے اپنے گوشوارے ظاہر کریںبلکہ مقررہ ٹیکس بھی ادا کریں ۔تاہم اگر پارلیمنٹ جیسے معزز ایوان کے اراکین ،جن میں بعض اہم ترین عہدوں پر بھی براجمان ہیں ،اگر گوشوارے ظاہر نہ کرنے کی روش اپنائیں گے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اسکے عوام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟پارلیمنٹ کے تقدس کا تقاضا ہے کہ اسکے سب اراکین قانون کی مکمل پاسداری کریں تاکہ ان پر انگلیاں نہ اٹھ سکیں ،ان کا یہ عمل عوام کیلئے بھی قابل تقلید ہو گا۔