سبز، لچکدار اور جامع معیشت میں سرمایہ کاری

January 24, 2022

آج سبز، لچکدار اور جامع معیشت میں سرمایہ کاری کرکے دنیا بھر کے ممالک کووِڈ-19اور ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز کو ایک خوشحال اور مستحکم مستقبل تشکیل دینے کے لیے موقع کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔ 2008ء-2009ء کے مالیاتی بحران کے بعد کے عشرے میں ترقی پذیر ممالک میں ڈھانچہ جاتی کمزوریاں نمایاں ہوکر سامنے آئیں، جنھیں کووِڈ-19اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے مسائل نے مزید سنگین بنادیا اور اس کے نتیجے میں غربت اور عدم مساوات میں اضافہ ہواہے۔

ان کمزوریوں کے نتیجے میں سرمایہ کاری، پیداوار، روزگار کے مواقع اور تخفیفِ غربت کی رفتار سست پڑی گئی جب کہ قرضوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ وَبائی مرض کے باعث پہلے ہی 10کروڑ سے زائد لوگ انتہائی غربت میں چلے گئے ہیں اور عدم مساوات کی صورتِ حال انتہائی تشویش ناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ خدشہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں 2030ء تک مزید 130ملین لوگ انتہائی غربت میں چلے جائیں گے۔

وَبائی مرض اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے سنگین مسائل نے افراد، معیشت اور کرہ ارض کے درمیان باہمی انحصار کو عیاں کردیا ہے۔ تمام معاشی سرگرمیاں کا دارومدار ماحولی نظام کی خدمات کی دستیابی پر ہوتا ہے، ایسے میں ان قدرتی وسائل کو تباہ کرنا جو ان خدمات کو تخلیق کرتی ہیں، بالآخر معاشی کارکردگی کو متاثر کرنے کا باعث بنتی ہیں۔

موجودہ چیلنجز کے تناظر میں دنیا کو مختلف زاویہ نگاہ سے ایسی پالیسیاں تشکیل دینے کی ضرورت ہے، جو اس باہمی انحصار کے پیچیدہ چیلنج سے نمٹ اور ڈھانچہ جاتی کمزوریوں کو درست کرسکیں، بصورتِ دیگر خدشہ ہے کہ دنیا معاشی ترقی کا ایک اور عشرہ ضائع کردے گی۔ سماجی معاشی، ماحولیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے انفرادی طور پر تشکیل دی گئی پالیسیاں اس قدر مؤثرثابت نہیں ہوں گی اور اس کے لیے ایک جامع پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

جس موجودہ طریقہ کار کے تحت معاشی نمو حاصل کی جارہی ہے، اگر اسے جاری رکھا گیا تو اس سے عالمی معیشت کو درپیش ڈھانچہ جاتی کمزوریوں کو دور نہیں کیا جاسکے گا اور یہ رجحان ’نیچرل کیپٹل‘ کے تباہ ہونے اور طویل مدت میں معاشی نمو کے لیے خطرات کو کم کرنے کے بجائے مزید بڑھائے گا۔ جنگلات، سمندر اور دیگر قدرتی وسائل انتہائی بیدردی سے تباہ کیے جارہے ہیں اور اس تباہی کو روکنے کے لیے اقدام نہ لینے کی قیمت مہنگی تر ہوتی جارہی ہے اور اس سے پسماندہ اور کمزور طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔

ماہرین کے مطابق، عالمی معیشت کو درپیش اس پیچیدہ چیلنج کا حل سبز، لچکدار اور جامع نمو کی پالیسی تشکیل دینے میں ہے، جو غربت میں کمی کا باعث اور طویل مدتی پائیداری کے ہدف پر نظر رکھتے ہوئے مشترکہ خوشحالی کے حصول کو ممکن بنائے گی۔ اس لائحہ عمل کی مدد سے طویل مدتی ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے بحالی کاطریقہ کار طے کرنے اور کرہ ارض، اس پر رہنے والے افراد اور معیشت کے مابین باہمی انحصار کو تسلیم کرتے ہوئے، چیلنجز سے ایک جامع پالیسی کے تحت نمٹا جاسکے گا۔ تحقیق بتاتی ہے کہ سبز بحالی ناصرف ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوگی بلکہ اس پر حکومتوں کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری کے فوائد بھی سب سے زیادہ ہوں گے۔ یہ لائحہ عمل دو طرح سے منفرد ہے:

ترقیاتی ماہرین ایک طویل عرصہ سے غربت، ناہمواری اور ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ یہ لائحہ عمل ان مسائل کو خصوصی طور پر توجہ میں رکھتے ہوئے اہم ترقیاتی پالیسیاں تجویز کرتا ہے۔ مزید برآں، یہ لائحہ عمل پائیداری، لچک اور جامعیت کو یقینی بنانے کے لیے بہ یک وقت، براہِ راست اور نظام کے اندر رہتے ہوئے اقدام تجویز کرتا ہے۔ یہ لائحہ عمل، ترقی اور پائیداری کے درمیان توازن کو قائم رکھتے ہوئے ہر ملک کی انفرادی ضروریات اور اہداف کو مدِنظر رکھتا ہے۔ یہ لائحہ عمل دیرپا معاشی نمو کو یقینی بناتے ہوئے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں بھی معاون ثابت ہوگا۔

کووِڈ-19سے نمٹنا

وَبائی مرض نے خاص طور پر ترقی پذیر معیشتوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس سے اہم بات یہ ہے کہ ٹیکوں کی بڑے پیمانے پر فراہمی معاشی بحالی میں کلیدی کردار کی حامل ہے۔ روئے زمین پر رہنےو الے تمام افراد کی ٹیکوں تک بلاتفریق رسائی ایک ایسا چیلنج ہے، جو دنیا کو پہلی بار درپیش ہے، جس کے لیے حکومتوں کے درمیان غیرمعمولی تعاون کی ضرورت ہے۔

آگے دیکھتے ہوئے، اس لائحہ پر عمل کرنے کے لیے تمام قسم کے وسائل (انسانی، جسمانی، قدرتی اور سماجی) میں بڑے پیمانے پر فوری سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی تاکہ ساختی کمزوریوں کو دور کرتے ہوئے ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔ نئی مہارتوں کے حصول اور وبائی مرض کے نقصانات سے نکلنے کے لیے خاص طور پر پسماندہ گروہوں میں انسانی وسائل کی ترقی پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔

تبدیلی کے طاقتور محرک کے طور پر خواتین کواس لائحہ عمل کے مرکز میں ہونا چاہیے۔ لڑکیوں کے لیے تعلیم، خاندانی منصوبہ بندی، تولیدی اور جنسی صحت، اور خواتین کے لیے معاشی مواقع ترقی کے سبز، لچکدار اور جامع جہتوں کو تیز کرے گی۔

کلیدی نظاموں میں تبدیلی کے اقدامات کی ضرورت ہوگی مثلاً توانائی، زراعت، خوراک، پانی، زمین، شہر، نقل و حمل اور مینوفیکچرنگ ، جو معیشت کو چلاتے ہیں اور گرین ہاؤس گیسوں کے 90فیصد سے زیادہ اخراج کا سبب بنتے ہیں۔ ان شعبوں میں نمایاں تبدیلی کے بغیر، نہ تو موسمیاتی تبدیلی روکنے کا ہدف حاصل کیا جاسکے گا اور نا ہی پائیدار اور لچکدار ترقی ممکن ہے۔ اس طرح کی تبدیلی، اقتصادی بگاڑ کو دور کرتے ہوئے اقتصادی کارکردگی کو فروغ دے گی اور پیداواری صلاحیت اور صحت کے منفی اثرات کو کم کرے گی، جس سے ترقی کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔