اگر آپ سے کوئی سوال کرے کہ آپ جاب کرنا پسند کرتے ہیں یا اپنا خود کا کاروبار؟ تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟ یقیناً کاروبار۔ کیوں کہ نوکری کرنے والا چند سالوں بعد بھی وہیں کا وہیں رہتا ہے جبکہ کاروبار شروع کرنے والا کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بہت زیادہ آمدن حاصل کرنا شروع کر دیتاہے۔
کاروباری افراد کہتے ہیں کہ نوکری میں کچھ نہیں رکھا، کاروبار کروجبکہ نوکری کرنے والے افرادکہتے ہیں کاروبار تو گھاٹے کا سودا ہے، کوئی پتہ نہیں کب آسمان پر جگمگانے والا ایک سودے میں ہی سڑک پر آجائے۔ کاروباری افراد ہر روز نیا کنواں کھودتے ہیں تاکہ اس دن کے پانی کا بندوبست ہو جبکہ نوکری کرو تو نری بے فکری ہے، پکی ماہانہ آمدنی لگ جاتی ہے۔
بات دونوں کی ٹھیک ہے لیکن نوکری میں انسان نوکر بن کر رہ جاتا ہے خواہ کتنی ہی بڑی نوکری کیوں نہ ہو اور کاروبار اس کےبرعکس ہے۔ کاروبار کرنےوالا محنت ضرور کرتا ہے لیکن اگر ایمانداری کے ساتھ کام کرے تو اس کی یہ محنت رنگ لاتی ہے اور اس کے لیے ترقی کے دروازے کھلتےہیں کیوں کہ انبیائے کرام نے بھی تجارت کرنے والے کو پسند فرمایاہے۔
پاکستان کو معاشی چیلنجز سے لڑنے کے لیے اس وقت انٹرپرینیورشپ یا نئے کاروبار شروع کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ملکی ترقی کا پہیہ اب صرف نئے کاروبار اور نئے روزگار پیدا کرنے سے ہی چل سکتا ہے۔ جتنے بھی پرُانے کاروباری ہیں وہ اس بات سے مکمل اتفاق کرینگے کہ ایک بہترین کاروباری آئیڈیاکا ہونا کسی کاروبار کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتا بلکہ اس کی مثال اس پہلے قدم کی طرح ہوتی ہے جو ایک بچہ لیتا ہے اور جس کے بعد وہ بہت چوٹوں، ٹکروں سے گزر کے کامیابی سے چلنا، دوڑنا وغیرہ سیکھ لیتا ہے۔ اسی طرح ایک نیا کاروباری بھی بہت مشکلات، کھٹن مراحل سے گزرتا ہے اور پھر بعد میں کہیں جاکر وہ کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتا ہے۔
موجودہ دور خود سے کاروبار شروع کرنےسے عبارت ہے کیوں کہ بڑھتی مہنگائی نے آمدن و اخراجات کے مابین بہت بڑا فاصلہ پیدا کردیا ہے۔ اگر انسان کی معاشی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو صدیوں سے انسان تجارت کو اہمیت دیتا آرہا ہے اور اسے پیشہ پیغمبری مانا گیا ہے کیونکہ جتنے بھی پیغمبر آئے، انہوں نے خود سے کاروبار کرنے کو اہمیت دی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کاروبار کیسے کیا جائے؟ اس ضمن میں جن ضروری امور کو دھیان میں رکھنا لازمی ہے، وہ ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں۔
منصوبہ بندی اور حکمت عملی
سب سے پہلے آپ کو اپنی طبیعت اور میلان کا جائزہ لینا ہے کہ کون سے کاروبار میں آپ دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کاروبار کو کرنے کے لیے آپ کی صلاحیت اور قابلیت کیا ہے۔ اس فیصلے پر پہنچنے کے بعد یہ دیکھیں کہ آپ کے پاس کتنا سرمایہ ہے۔ سب سے پہلے تو ایسے کام سے آغاز کیجیے، جس میں کم از کم سرمائے سے زیادہ نفع حاصل کرنے کے امکانات روشن ہوتے ہوں۔ مثال کے طور پر کریانے کی چھوٹی دکان آپ کے لیے اچھی ابتدا ہوسکتی ہے جہاں آٹا،چینی،دال،چاول جیسی روزمرہ استعمال کی اشیا تھوک مارکیٹ سے بآسانی مل جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ اب ہر کمپنی نے اپنا سیلز سروس سسٹم اتنا مضبوط کرلیا ہے کہ آپ کو اپنی دکان پر بیٹھے بٹھائے سارا سامان مل جاتا ہے اور آپ اضافی اخراجات سے بھی بچ جاتے ہیں۔ انتہائی دلجمعی سے اپنا یہ کاروبار کیجیے اور شروع سے ہی ایسی حکمت عملی اپنائیے کہ آپ کو نقد سامان خریدنے والے گاہک مل جائیں جبکہ ادھار لینے والے گاہکوں کے لیے ایسا حساب رکھیے کہ مقرر تاریخ پر ادائیگی ممکن ہوجائے۔ اپنا کام ایمانداری سے کیجیے، اس طرح مارکیٹ میں آپ کی اچھی ساکھ بن جائے گی۔
دنیا بھر کی کامیاب کمپنیوں کا ایک ہی اصول رہا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر ایمانداری اور معیار کونہیں چھوڑتیں اور جو غیر معیاری اشیا بنا کر بیچتے ہیں وہ بھلے پیسے کماتے ہوں لیکن اس پیسے میں رتی برابر برکت نہیں ہوتی۔ ہمارے کرنسی نوٹوں پر بھی یہی لکھا ہوتا ہے کہ’’ رزقِ حلال عین عبادت ہے‘‘۔ کوئی بھی کاروبار سچائی، خلوص اور دلچسپی کا تقاضا کرتا ہے۔
حساب کتاب کو اوّلین ترجیح دیجیے
کسی بھی کاروبار کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ آپ جو بھی خدمات انجام دے رہے ہیں، اس کا حساب کتاب رکھیے۔ اس کے لیے اکاؤنٹ مینجمنٹ کا دھیان رکھنا لازمی ہے، جو بھی چیز آپ فروخت یا بنا رہے ہیں اس کا مکمل حساب رکھیے اور اس حوالے سے رجسٹر میں نوٹ کریں کہ آپ نے کس تاریخ کو کون سی چیز کس کمپنی سے خریدی تھی؟ کس کمپنی نمائندے کے ہاتھوں لین دین ہوئی تھی؟ تمام اشیا کی رسیدیں لازمی لےکراپنے پاس محفوظ کرلیجیے اور اسے ترتیب سے فائل میں رکھیے۔ اس کے بعد جب کوئی بھی گاہک آپ سے کوئی چیز خرید لے تو اسے ایک الگ رجسٹر میں لکھیے۔
اگر کسی کو سامان ادھار پر دے رہے ہیں تو اس کی تمام تفصیلات درج کریں، نیز اُدھار لینے والے کا پتہ اورفون نمبر لازمی لکھیں۔ آپ ہوم ڈیلیوری کی خدمات بھی مہیا کرکے اپنی فروخت اور ساکھ کو بہتر بنا سکتے ہیں، تاکہ لوگوں کو گھر بیٹھے چیزیں دستیاب ہوجائیں، جیسے دودھ فروش کرتے ہیں۔ ہر ایک چیز کی خرید و فروخت کا روزمرہ بنیادوں پر جائزہ لیجیے کہ کون کون سے ضروری آئٹمز کی مانگ ہے۔
اس کے بعد ان ضروری اشیا کو بنانے والی کمپنیوں سے رابطہ کیجیے کہ وہ آپ کو زیادہ سے زیادہ کتنا منافع دے سکتی ہیں۔ تھوک فروش مارکیٹ تک اشیائے صرف پہنچتے پہنچتے مہنگی ہو جاتی ہیں، اس لیے کوشش کرکے چیزیں بنانے اور اُگانے والوں سے براہ راست رابطہ کریں تاکہ آپ کو سستے داموں چیزیں مل سکیں اور زیادہ منافع حاصل ہو۔ اسی طرح سیلز مین سے زیادہ ارزاں داموں پر اشیا خریدنے کی کوشش کریں، آج کل سپر اسٹورز ایسا ہی کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کم از کم منافع رکھ کر وہ عوام کی بڑی تعداد کو اپنی جانب مائل کرلیتے ہیں۔
زائد آمدن محفوظ رکھیے
ہمارے اکثر کاروباری حضرات جب منافع دیکھتے ہیں تو پیسے کی لین دین اور آمدن و اخراجات سے غافل ہوجاتے ہیں، ساتھ ہی غیر محسوس طریقے سے لگژری آئٹمز میں پیسہ خرچ کرکے خسارے کا سامنا کرتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ جیسا حساب کتاب آپ کو اشیا کی خرید کے وقت رکھنا ہے، ویسا ہی حساب کتاب ان چیزوں کی فروخت کے وقت بھی کرنا ہے کہ کس چیز نے آپ کو کتنا منافع دیا اور زائد رقم کا آپ نے کیا کیا۔
ان تمام امور کی اکاؤنٹ مینجمنٹ لازمی ہے،تاکہ آپ جان سکیں کہ ان تمام اخراجات کے بعد کتنی رقم بچ جاتی ہے جو آپ کا خالص منافع ہے۔ اس رقم کو مشکل دنوں کے لیے محفوظ کرتے جائیےکیونکہ وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا اور کوئی کاروبار دائم نہیں رہتا۔ اگر کہیں کسی چیز میں خسارہ ہوجائے تو وہ زائد رقم آپ کو دیوالیہ ہونے سے بچائے گی۔
ضروریات کوہدف بنائیں
کوئی بھی کاروبار شروع کرنے سے پہلے یہ طے کر لیں کہ وہ کاروبار ضروریات کو پورا کرتا ہے یا خواہشات کو۔ خواہشات کو پورا کرنے والا کاروبار بھی پاکستان میں خوب چل سکتا ہے لیکن اس کے لیے آپ کو اپنے کاروبار میں سرمایہ کاری بھی بھاری کرنا پڑے گی۔ آپ کی آؤٹ لیٹ انتہائی شاندار ہونی چاہیے اور اس کی لوکیشن ایسی ہونی چاہیے جہاں پر پیسے والا طبقہ آنا پسند کرے۔ اس کاروبار میں آپ کو نسبتاً کم گاہک چاہیے ہوں گے اور آپ آمدنی کا اپنا ہدف حاصل کرلیں گے۔
تاہم، پاکستان جیسے ملک میں آپ کا کاروبار ضروریات سے متعلق ہونا چاہیے کیوں کہ ضروریات والے کاروبار میں آپ کو نسبتاً کم سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی اور اس میں بھی آپ کو بڑی تعداد میں گاہک مل جائیں گے، کیونکہ پاکستان کی زیادہ تر آبادی اگر غربت کی لکیر کے نیچے نہیں تو بہت قریب زندگی گزار رہی ہے اور ان لوگوں کے لیے ضروریات کا پورا ہونا باقی سب چیزوں سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔