• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اچھی نوکری کا حصول ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے، خاص کر ایسی نوکری جو آمدن کے لحاظ سے انتہائی فائدہ مند ہو۔ ویسے تو انسان کی امارت کے پسِ پشت سب سے اہم کردار اس کی قسمت کا ہوتا ہے لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اچھی حکمت عملی سے آپ اپنی قسمت بھی تبدیل کرسکتے ہیں۔

برطانوی ایجنسی نے اپنی تحقیق میں دنیا کے 100 امیر ترین افراد کی تعلیم، ان کی پہلی نوکری اور ان افراد کے ارب پتی بننے کے سفر کا مطالعہ کیا۔ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ دنیا کے 100امیر ترین افراد میں سے 75 ڈگری یافتہ تھے اور ان 75 میں سے بھی 22 افراد نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی تھی۔

ان 100افراد میں سے 53افراد نے اپنے خاندانی کاروبار سے منسلک ہونے کے بجائے اپنے بل بوتے پر کام کا انتخاب کیا۔ دنیا کے 100 امیر ترین افراد میں سے 19 افراد نے پہلی نوکری ’سیلز پرسن‘ کی حیثیت میں کی۔ کئی نوجوان، دورانِ تعلیم ہی ’سیلز پرسن‘ کی جاب بھی کررہے ہوتے ہیں، جس کا مقصد تعلیمی اخراجات پورے کرنا یا پھر اپنی مطلوبہ فیلڈ میں تجربہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ایک اچھے سیلز پرسن کے لیے یہ آسان کام ہے لیکن اعلیٰ کارکردگی کے لیے اپنی صلاحیتوں میں مسلسل نکھار لایا جاتا ہے۔ اگر آپ اس میدان میں پہلی بار کودے ہیں یا بنیادی باتیں جاننا چاہتے ہیں تو اس کے لیے سیلز کے ماہرین کامیاب سیلز پرسن بننے کے لیے درج ذیل مشوروں سے نوازتے ہیں۔

سیلز کے طور طریقے بدل رہے ہیں 

سیلز کی دنیا تیزی سے بدل رہی ہےلیکن بہت سی چیزیں ویسی ہی رہتی ہیں۔ صارفین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے آپ کو ان کے ذہن میں اپنی پراڈکٹ کی ضرورت اور دلچسپی پیدا کرنی ہوگی۔ اگر آپ ہر سیلز پروسیس کو ایک ہی طرح لیں گے تو بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یاد رکھیں کہ ہر بزنس کی اپنی نوعیت ہوتی ہے، اسی لیے سب سے پہلے آپ کو اپنے منیجرز کے ساتھ بیٹھ کر کمپنی کے پروسیس کو سمجھنا ہوگا۔ اس کیلئے آپ کو اپنی پراڈکٹ کی پوزیشن، اس کی خصوصیا ت کو سامنے لانے کی حکمت عملی اور مثالی صارفین کی کھوج کو سیکھنا ہوگا۔

ہدف متعین کریں

اگر آپ سیلز کا کام سیکھنا چاہتے ہیں تو اپنا ہدف متعین کریں اور اس کے حصول کے لیے اپنی کارکردگی جانیں۔ یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ آپ کو یا آپ کی کمپنی کو کتنے صارفین کی ضرورت ہے اور اس کا ٹائم فریم کیا ہے۔ آپ کتنے رابطے قائم یا استوار کرسکتے ہیں اور آپ کو ان سے کتنے مواقع حاصل ہوسکتے ہیں۔ جس ریونیو کا ہدف آپ کو دیا گیاہے، اس کے حوالے سے اپنے صارفین کو اپنی کمپنی کی مصنوعات کی اوسط قیمت سے ضرب دیں اور اس ہدف تک پہنچنے کے لیے محنت کریں۔ اپنے ذاتی ہدف طے کرنے کو بھی یقینی بنائیں ۔ آپ کی کمپنی میں 2فیصد سرفہرست سیلز پرسن اپنی توجہ، کام کی مہارت، تجربہ کے تسلسل اور کام کی انجام دہی پر عبور رکھتے ہیں۔ اس قسم کے سیلز پرسن میں جگہ بنانا اپنا ہدف بنائیں ۔ یہ آج یا کل نہیں، لیکن ایک دن آئے گا کہ آپ بھی سرفہرست سیلز پرسن ہوںگے۔

کاروباری مسائل کی نشاندہی

آ پ میں یہ سمجھنے کی اتنی قابلیت ہونی چاہیے کہ آپ کے متوقع کاروبار کے کیا مسائل ہو سکتے ہیں اور انہیں عام مسائل سے الگ کرنا بھی آپ کو آنا چاہئے۔ دراصل یہ مسائل آپ کی سیلز میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ایک حقیقی کاروبار میں، ایگزیکٹو آفس اور بورڈ روم میں مسائل ہر روز زیر بحث آتے ہیں۔ یہ بجٹ کا بھی مسئلہ ہوسکتا ہے اور سیلز ٹیم میں افرادی قوت کی کمی کابھی یا ہوسکتا ہے کہ اس سے بھی بڑھ کر شاید کوئی اور مسئلہ ہو جس کی نشاندہی کرنا بہت ضروری ہوتی ہے۔

بحیثیت ایک سیلز پرسن آپ کو اپنا اعتماد قائم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خریدار کو اعتماد درکار ہوتاہے کہ آپ ان کے مسائل کو سمجھتے ہیں اورانہیں حل کرسکتے ہیں لیکن یہ تعلق سیلز کے بعد ختم نہیں ہونا چاہئے، آپ کو اخلاقی طور پر ایفائے عہد پورا کرنے کے لیے بعد میں بھی روابط قائم رکھنے ہیں۔ ایک بار جب آپ اپنی پراڈکٹ یا سروس کے ذریعے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے تو آپ کے پاس بہت سے مطمئن صارفین ہوں گے۔

سیلز اہداف

کسی بھی چیز کی پیمائش یا جانچ اس کی قدر کا اندازہ کرواتی ہے اور جو چیز قابل پیمائش ہو، اس میں بہتر ی کی گنجائش رہتی ہے۔ یادرکھیں ، ہدف طے کرنے کے بعد اس کو پانے کے لیے اپنی کارکردگی کو جذبے سے پرکھیں۔ مثلاً آج آپ نے کس شرح پر سیلز کی اور مہینے کے آخر میں یہ تعداد کہاں تک پہنچ سکتی ہے؟ کیا آپ کی سیلز کی وجہ سے صارفین پراڈکٹ یا سروس کی طرف مائل ہورہے ہیں ؟ اگر نہیں، تو پھر کچھ تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ مہینے کے آخرتک ہدف پورا کرنے کا انتظار نہ کریں، اس سےپہلے کرلیں تو یہ بہت بہتر ہوگا۔ اس سلسلے میں اپنے منیجر سے مدد لینے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے۔

صارف سے تعلق

بہت سے سیلز پرسن ان لوگوں کے انتظا ر میں گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں،جو ان سے بات نہیں کرنا چاہتے لیکن برسوں کے تجربے کےبعد آپ اس قابل ہوجاتے ہیں کہ وہ لوگ آپ سے بات کریں اور آپ کی بات سننا چاہیں۔ اسے اِن بائونڈ مارکیٹنگ کہتے ہیں اور یہی اس کی طاقت ہے۔ لوگوں کے کام آنے والا اعلیٰ، معیار ی اور مدد گار کانٹینٹ آپ کے امکانات بڑھا دیتاہے۔ اس سے آپ کا وقت بھی بچتا ہے اور آپ اپنی سیلز کو بھی مکمل کرلیتے ہیں۔

قوتِ سماعت

معروف مصنف صغیر احمد پروفیشنل سیلز کلوزنگ ٹیکنیکس پر لکھی گئی اپنی کتاب میں کہتے ہیں کہ، صارف کو قائل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سیلز پرسن گفت و شنید کے سب سے مؤثر ٹول سے واقف ہو۔ اس میں سب سے اہم ٹول صارف یا پراسپیکٹ کی بات غور سے سُننا ہے، یعنی سیلز پرسن کی قوتِ سماعت۔ یہ مہارت ناصرف سیلز میں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ کے لیے انتہائی ناگزیر ہے کیوں کہ ایک یہی خوبی ہمارے تمام انسانی تعلقات کامیابی سے قائم و دائم رکھنے کی بنیاد بنتی ہے۔ 

سماعت ایک ایسی مؤثر قوت اور مہارت ہے جس کے صحیح استعمال سے سیلز پرسن ناصرف پراسپیکٹ کا اعتماد بلکہ بزنس بھی جیت سکتا ہے۔ باہمی گفت و شنید میں اگر سیلز پرسن اپنے پراسپیکٹ کی بات توجہ سے سُنتا ہے، اس کی گفتگو کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تو جواباً وہ بھی اس کی بات کو غور سے سنے گا، اس کی پریزنٹیشن پر توجہ رکھے گا اور اس کی پراڈکٹ کو اہمیت دے گا۔

نئے دور کا سیلز ماڈل بھی یہی کہتا ہے کہ اچھے سیلز پرسن کے لیے اچھا سامع ہونا ایک بنیادی مہارت بھی ہے اور صلاحیت بھی۔ سیلزمین شپ کا پُرانا ماڈل، سیلز پرسن سے زیادہ بولنے کی توقع کرتا تھا تاہم دورِ جدید کا ماڈل کہتا ہے کہ سیلز پرسن کو چاہیے کہ وہ پراسپیکٹ سے سوال کرے اس کی ضروریات کے بارے میں پوچھے اور سوال پوچھنے کے بعد اس کا جواب مکمل یکسوئی سے سُنے۔ دورِ جدید کا پروفیشنل سیلز پرسن، میٹنگ کا 30فی صد وقت بولنے (خاص طور پر سوالات پوچھنے) اور 70فی صد حصہ پراسپیکٹ کے جوابات اور ضروریات سُننے میں خرچ کرتا ہے۔

خاموشی کی طاقت

سیلز مین شپ کا ایک معروف اصول یہ ہے کہ کوئی چیز بیچنے کے لیے الفاظ استعمال ہوتے ہیں لیکن کلوزنگ کے لیے خاموشی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ماہرِ ابلاغ جان فینیٹن نے سیلز پرسن کی توجہ انگریزی زبان کے چھ حرفی لفظ Listenپر مبذول کرواتے ہوئے کہا ہے کہ کیا آپ نے غور کیا ہے کہ انگریزی زبان کا ایک اور چھ حرفی لفظ Silentبھی ان ہی چھ حروف پر مشتمل ہے، بس ان حروف کی ترتیب میں تھوڑا سا فرق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک کامیاب سیلز پرسن کو انتہائی سکون اور اطمینان کے ساتھ اپنے پراسپیکٹ کی باتوں کو خاموشی سے سُننا اور سمجھنا چاہیے۔