فٹ بال ورلڈ کپ 2022ء کی میزبانی کے باعث مشرقِ وسطیٰ کی چھوٹی سی لیکن معدنی تیل اور گیس کے ذخائر سے مالامال ریاست ’قطر‘ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ 30لاکھ نفوس آبادی پر مشتمل مشرقِ وسطیٰ کا یہ چھوٹا سا ملک صرف ایک صدی قبل یعنی 1922ء میں عملی طور پر ایک غیر آباد سرزمین تھی؟ بہت سے لوگوں کے لیے یہ حیرانی کی بات ہوگی لیکن حقائق یہی ہیں۔
قطر کی تاریخ
12ہزار کلومیٹر سے بھی کم رقبے پر مشتمل یہ چھوٹی خلیجی ریاست ماہی گیروں اور موتی جمع کرنے والوں کی ایک بستی تھی، جہاں کے باشندوں کی اکثریت جزیرہ نما عرب کے وسیع صحراؤں سے آنے والے خانہ بدوش مسافروں پر مشتمل تھی۔ مزید ستم ظریفی یہ ہوئی کہ 1930ءاور 1940ء کے عشرے میں جاپانیوں نے موتیوں کی فارمنگ ایجاد کرکے اور بڑے پیمانے پر اس کی پیداوار یقینی بنا کر قطر کی رہی سہی معیشت کو تباہ کر دیا۔
اس دہائی میں قطر اپنے 30 فیصد باشندوں سے محروم ہوگیا جو بیرونِ ملک معاشی مواقع تلاش کرنے چلے گئے تھے۔ دس سال بعد1950ء میں اقوامِ متحدہ کے مطابق یہاں 24 ہزار سے بھی کم باشندے رہ گئے تھے۔ 1950ء کے قطر اور آج کے قطر کا موازنہ کیا جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے، کیوں کہ ایسا صرف کسی معجزے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔
تیل و گیس کے ذخائر کی دریافت
جی ہاں، قطر کی تبدیلی ایک معجزے کا ہی نتیجہ ہے کیوں کہ اسی دوران وہاں تیل کے ذخائر دریافت ہوئے جن میں سے ایک کا شمار دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد قطری خزانہ تیزی سے بھرنا شروع ہوا اور یہ اس کے باشندوں کے لیے دنیا کے چند امیر ترین شہریوں میں شامل ہونے کا نقطہ آغاز بھی ثابت ہوا۔
قطر میں جس وقت خام تیل کے ذخائر دریافت ہوئے تھے،اس وقت تک وہ ایک قوم کے طور پر وجود نہیں رکھتا تھا اور یہ انگریزوں کےزیرِ انتظام تھا۔ قطر میں تیل کے اولین ذخائر 1939ء میں ملک کے مغربی ساحل پر اور دوحہ سے تقریباً 80 کلومیٹر دور دخان میں دریافت ہوئے۔ تاہم اس تلاش سے فائدہ اُٹھانے میں مزید چند سال لگے۔
یہ دریافت دوسری عالمی جنگ کے آغاز میں ہوئی، جس کی وجہ سے 1949ء تک تیل کی برآمد تعطل کا شکار رہی اور فوری طور پر اس دریافت سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا۔ تیل کی بڑھتی ہوئی صنعت کی کشش نے تارکین وطن اور سرمایہ کاروں کو قطر کی طرف متوجہ کیا اور یوں اس کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا۔ اس کے نتیجے میں 1950ء میں 25ہزار سے کم آبادی کے مقابلے میں 1970ء تک یہ آبادی بڑھ کر ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی۔
نارتھ فیلڈ
ایک سال بعد، برطانوی راج کے خاتمے کے بعد قطر ایک آزاد ریاست کے طور پر مستحکم ہوگیا۔ خوش قسمتی سے اسی دوران ایک اور معدنی دریافت نے قطر پر دولت کے نئے دروازے کھول دیے۔ جی ہاں، یہ قدرتی گیس کی دریافت تھی۔ یہ 1971ء کی بات ہے۔ یہ سمجھنے میں 14 سال اور درجنوں مشقیں لگیں کہ نارتھ فیلڈ دنیا کی سب سے بڑی ’نان ایسوسی ایٹڈ‘ قدرتی گیس فیلڈ تھی، جس میں دنیا کے معلوم گیس ذخائر کا تقریباً 10 فیصد حصہ موجود ہے۔
نارتھ فیلڈ تقریباً چھ ہزار کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے، جو پورے قطر کے نصف کے برابر ہے۔ آج قطر کے پاس روس اور ایران کے بعد گیس کے تیسرے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ ’قطر گیس‘ دنیا میں سب سے زیادہ مائع قدرتی گیس پیدا کرنے والی کمپنی ہے۔ اس صنعت کی ترقی کو قطری اقتصادی ترقی میں ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے۔
21ویں صدی میں قطر کی اقتصادی ترقی
21ویں صدی کی آمد کے ساتھ ہی قطری اقتصادی ترقی میں تیزی دیکھنے کو ملی۔ صرف 2003ء اور 2004ء کے درمیان جی ڈی پی تین اعشاریہ سات فیصد کی شرح سے بڑھ کر 19.2 فیصد پر چلی گئی۔ 2006ء میں معیشت میں 26.2 فیصد اضافہ ہوا۔
ماہرین کے مطابق، اس کے بڑے ذخائر کی مجموعی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے انھیں نکالنے، مائع میں تبدیل کرنے اور ڈسٹری بیوشن انفرااسٹرکچر سرمایہ کاری میں کئی گنا اضافہ ہوا اور اس کے باعث برآمدات میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔
فی کس جی ڈی پی
یہ1996ء کی بات ہے جب قدرتی گیس سے بھرا ایک کارگو قطر سے جاپان کے لیے روانہ ہوا۔ یہ قطری گیس کی پہلی بڑی برآمد اور اربوں ڈالر کی صنعت کا آغاز تھا جس نے قطریوں کو عالمی دولت کے عروج پر پہنچا دیا۔ 2021ء میں قطر میں فی کس جی ڈی پی 61ہزار276 ڈالر تھی۔ اگر ہم قوت خرید کو بھی مدنظر رکھیں تو عالمی بینک کے مطابق یہ 93ہزار521امریکی ڈالر تک پہنچ جاتی ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کی آبادی کی کم تعداد اس حوالے سے بہت زیادہ فرق ڈالتی ہے۔
اس وقت ملک میں قطریوں کی تعداد صرف تین سے ساڑھے تین لاکھ کے لگ بھگ ہے جو ملک کی کل تیس لاکھ آبادی کا صرف 10 فیصد ہے۔ ان افراد میں زیادہ تعداد غیر ملکیوں کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آبادی جنھیں ریاست کے یہ عظیم فوائد ملنے ہیں، وہ بہت کم ہے۔ یہی وجہ تھی کہ فی کس جی ڈی پی اتنی تیزی سے بڑھنے لگی۔ قطری ریاست، اعلیٰ اجرتوں کی ضمانت دینے کے علاوہ، مضبوط تعلیمی اور صحت کا نظام بھی فراہم کرتی ہے۔
معیشت کو درپیش چیلنجز
بے مثال معاشی ترقی کے باوجود، قطر کی معیشت کو کئی چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں قطر کی شاندار اقتصادی ترقی کو دھچکا لگا اور اسے سست روی کا سامنا رہا۔ ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی درجہ حرارت میں ناقابلِ برداشت حد تک اضافے کے خدشات کے باعث دنیا فوسل فیول پر انحصار کم کررہی ہے۔ 21ویں صدی کے دوسرے عشرے میں جب تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی تو فوسل فیول پر انحصار کرنے والی معیشتوں میں اقتصادی تنوع کو ناگزیر قرار دیا جانے لگا۔ صرف یہی نہیں، خلیج کے دیگر ملکوں کے ساتھ سفارتی تنازع نے بھی قطر کی معیشت پر ضرب لگائی۔
قطر کی دنیا میں سرمایہ کاری
ماہرین کا خیال ہے کہ، قطر ابھی تک گیس یا تیل کی برآمدات پر منحصر معیشت میں جدت نہیں لاپایا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نجی شعبے کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے اور ہائیڈرو کاربن پر اپنا انحصار کم کرنے کے لیے دنیا بھر میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس کوشش کی ایک اچھی مثال قطر انویسٹمنٹ اتھارٹی کی لندن یا نیویارک جیسے شہروں میں متعدد مشہور جائیدادوں میں موجودگی ہے۔
سیاحت کا فروغ
صرف یہی نہیں، قطر کا حکمران خاندان ملک میں سیاحت کو بھی زبردست طریقے سے فروغ دینے پر کام کررہا ہے۔ فٹ بال ورلڈ کپ 2022ء کی میزبانی اور قطر کو دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کے لیے تیار کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
دراصل، فٹ بال ورلڈ کپ 2022ء کی میزبانی نے قطر کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ دنیا بھر کے سیاحوں کو صرف اس ایونٹ کے لیے ہی نہیں بلکہ مستقبل میں انھیں بار بار قطر آنے پر مجبور کرے۔ نیز، دوحہ کو میٹنگز، کانفرنسز اور تقریبات کے مرکز میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
قطر کی جانب سے فٹ بال ورلڈکپ میں دو لاکھ ملین امریکی ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری اس کی معیشت کی وسعت کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ تاریخ کا سب سے مہنگا ورلڈ کپ ہے، جس میں آٹھ اسٹیڈیم، ایک نیا ہوائی اڈہ اور ایک نئی میٹرو لائن بنائی گئی۔