مشیرِ احتساب کا استعفیٰ

January 26, 2022

پیر کی شام وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب وا مور داخلہ مرزا شہزاد اکبر کے ایک ٹوئٹر پیغام نے ملک بھر میں ہلچل کی کیفیت پیدا کردی۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ان کا بیان تھا ’’میں نے آج بحیثیت مشیر وزیراعظم کو اپنا استعفیٰ پیش کردیا ہے۔ میں مخلصانہ طور پر امید رکھتا ہوں کہ عمران خان کی قیادت میں احتساب کا عمل تحریک انصاف کے منشور کے مطابق جاری رہے گا۔ میں پارٹی سے وابستہ رہوں گا اور اس کی قانونی ٹیم کے رکن کی حیثیت سے اپنا تعاون جاری رکھوں گا‘‘۔ ملک کے ذرائع ابلاغ پر یہ خبریں اگرچہ پچھلے ہفتے سے گرم تھیں کہ وزیراعظم نے شہزاد اکبر کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن ان کے ترجمان شہباز گل نے ان خبروں کو بےبنیاد قرار دیا تھا، اور اب جبکہ انہوں نے خود اپنے مستعفی ہونے کی تصدیق کردی ہے تب بھی اس معاملے میں حکومتی شخصیات کی جانب سے متضاد موقفوں کا اظہار کیا جاتا رہا اور رات گئے تک ’’کس کا یقین کیجئے کس کا یقیں نہ کیجئے، لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبریں الگ الگ‘‘ کی سی کیفیت رہی۔ وزیراعظم نے اپنے مختصر تبصرے میں کہا ’’شہزاد اکبر ڈلیور نہیں کر سکے، ان سے کچھ اور کام لینا چاہیے تھا‘‘۔ وفاقی وزیر اطلاعات کی حیثیت سے حکومت کے اہم ترین ترجمان فواد چوہدری نے وزیراعظم کے موقف کے بالکل برخلاف ارشاد فرمایا ’’شہزاد اکبر نے شدید دباؤ میں بہترین کام کیا‘‘۔ شہباز گل کا کہنا تھا ’’انہوں نے استعفیٰ دیا ہے ان سے لیا نہیں گیا‘ انہیں کوئی اور اہم ذمے داری ملنے والی ہے‘‘۔ بعض دوسرے اندرونی ذرائع نے انکشاف کیا ’’مقدمات کی نامکمل تفصیلات دینے پر وزیراعظم ان سے ناراض ہو گئے تھے‘‘۔ حکومتی حلقوں سے بلند ہونے والی بھانت بھانت کی یہ بولیاں بظاہر اس داخلی افراتفری کا مظہر ہیں جو حکومت کے اندر مسلسل بڑھتی محسوس کی جارہی ہے۔ تاہم وجہ کچھ بھی ہو یہ بہرحال حقیقت ہے کہ وزیراعظم نے اپنے قومی ایجنڈے کے سب سے اہم کام کے لیے جس فرد کا انتخاب کیا تھا، وہ مثبت نتائج فراہم کرنے میں یکسر ناکام رہا اور حکومت کی آئینی مدت کے بالکل آخری حصے میں وزیراعظم کو اسے تبدیل کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ساڑھے تین سال قبل وزیراعظم کی حیثیت سے ملک کا اقتدار سنبھالنے والے عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف کے انتخابی منشور کا اہم ترین نکتہ مالی بدعنوانیوں میں ملوث پاکستانیوں کا محاسبہ کرکے سینکڑوں ارب ڈالر کی لوٹی ہوئی قومی دولت کا سرکاری خزانے میں واپس لایا جانا تھا۔ شہزاد اکبر نے منصب سنبھالنے کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے قومی دولت لوٹ کر باہر بھیجنے والے سو افراد کا پتہ لگا لیا ہے، ملک کے کم از کم 280ارب ڈالر بیرونی بینکوں میں جمع ہیں اور وہ یہ ساری رقم واپس لاکر دکھائیں گے لیکن عملاً ساڑھے تین سال کی پوری مدت میں احتساب کا نشانہ صرف حکومت کے سیاسی مخالفین خصوصاً سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کو بنائے رکھا گیا لیکن ان کے خلاف مقدمات کی بھرمار کے باوجود ایک دھیلے کی کرپشن اب تک ثابت نہیں کی جا سکی۔ دوسری جانب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق کرپشن کے حوالے سے180ملکوں کی فہرست میں پاکستان گزشتہ سال کے مقابلے میں 16درجے اضافے کے بعد124سے 140ویں نمبر پر آگیا ہے۔ یہ کارکردگی ہے اس شخص کی جس کا انتخاب وزیراعظم نے اپنے انتخابی منشور کی اہم ترین شق پر عمل درآمد کرانے کی خاطر کیا تھا لیکن یہ کوئی ایک مثال نہیں، خود کو بہترین ٹیم بنانے کا ماہر قرار دینے والے عمران خان پاکستان کی تاریخ میں وزرائے خزانہ اور ایف بی آر کے سربراہوں سمیت حکومتی ٹیم میںدو درجن سے زائد تبدیلیاں کرکے اس حوالے سے وزیراعظم کی حیثیت سے سب سے بلند مقام پر فائز ہو چکے اور اپنے دعوے کی آپ تردید بن گئے ہیں۔