فوجداری قوانین میں اصلاحات

January 29, 2022

ایک صحتمند اور مثالی معاشرہ کے تناظر میں خامیوں سے پاک عدالتی اور پولیس نظام سے انکار ممکن نہیں اور وطن عزیز میں اس کی ضرورت روز اول سے محسوس کی جارہی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نےاس بات کا ادراک کرتے ہوئے نیا مسودہ قانون تیار کیا ہے جس کے تحت ضابطہ فوجداری، تعزیرا ت پاکستان اور قانون شہادت میں ایک سو سے زائد ترامیم کی گئی ہیں جنہیں باقاعدہ منظوری کیلئے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ جس کے بعد انگریز کے 1898میں نافذ کئے گئے قانون کی جگہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک جامع فوجداری نظام رائج ہو سکے گا۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ان ترامیم کا مقصد امیر اور غریب سب کو قانون کے تابع لانا ہے، ان کا یہ بھی کہنا بجا ہے کہ مروجہ فوجداری قانون انگریز کا بنایا ہوا تھا جو ایک صدی سے بھی پرانا ہے جس میں پائی جانے والی خامیوں کی وجہ سے امیر اور بااثر افراد اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ متذکرہ بل میں مجوزہ قوانین کی جو طویل فہرست سامنے آئی ہے، اس کے چیدہ چیدہ نکات میں ریلوے ایکٹ اور منشیات کے مقدمات میں سزائے موت ختم کرنا، غیرقانونی پولیس حراست پر سات سال قید، غیر سنجیدہ مقدمہ بازی پر 10لاکھ روپے تک جرمانہ، خواتین کی جاسوسی، انہیں ہراساں کرنا اور کسی کو پانی میں پھینکنا جرم تصور ہوگا۔ مسودےمیں شامل دفعات کے مطابق طبی معائنے کی غرض سے بنائے جانے والے میڈیکل بورڈ کا سربراہ کوالیفائیڈ اور تجربہ کار ماہر نفسیات ہوگا۔ بغیر وارنٹ گرفتاری انچارج تھانہ کے علم میں لائی جائے گی جو اپنا اطمینان کر کے اسے ضبط تحریر میں لائے گا، نیز زیر حراست فرد کے اہلِ خانہ کو اس بارے میں مطلع کیا جائے گا اور 24گھنٹے کے اندر اسے وکیل تک رسائی دی جائے گی، اخراجات نہ ہونے کی صورت میں سرکاری خرچے پر وکیل فراہم کیا جائے گا۔ ریپ کیسوں میں 72گھنٹے کے اندر نمونہ لے کر ڈی این اے ٹیسٹ منظور شدہ لیبارٹری سے کرایا جائے گا مزید برآں مقدمے کی کارروائی 9ماہ میں مکمل کرنی ہوگی جبکہ زیر التوا کیسوں کی ماہانہ رپورٹ مع وجوہات متعلقہ ہائی کورٹ اور اس کی نقل صوبائی اور وفاقی سیکرٹری قانون کو بھیجی جائے گی اور مطمئن ہونے پر ہائیکورٹ مقدمے کی تکمیل کیلئے نئی ٹائم لائن مقرر کرے گی۔ مسودے میں مغربی ممالک کی طرح فوجداری پلی بارگین کا نیا باب متعارف کرایا گیا ہے جس کے تحت ملزم ٹرائل کورٹ میں پلی بارگین کی درخواست دے گا اور عدالت درخواست کا جائزہ لے کر سزا میں تخفیف کر سکے گی۔ مقدمات کے اندراج سے لے کر عدالتی کارروائی کے دوران آڈیو اور وڈیو ریکارڈنگ پر زیادہ سے زیادہ انحصار کیا جائے گا۔ اشتہاری ہونے کی صورت میں عدالت ملزم کا قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ، بینک کارڈ، بینک اکائونٹ بلاک کرنے کا حکم دے سکے گی۔ 15سال سے کم اور 65سال سے زیادہ عمر کے مشتبہ مرد، جسمانی یا ذہنی معذور یا کسی خاتون کو تفتیش کیلئے تھانے نہیں بلایا جائے گا۔ مجوزہ اصلاحات پر جہاں مختلف طبقات نے ملی جلی آرا کا اظہار کیا ہے، وکلا برادری میں بڑی حد تک تحفظات پائے جاتے ہیں جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس بنیاد پر مسترد کر دیا ہے کہ یہ ترامیم تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر پیش کی گئی ہیں، ان کے بقول انہیں مزید موثر، کارآمد اور فائدہ مند بنانے کیلئے وسیع بنیادوں پر مشاورت کی ضرورت ہے۔ ادھر وزارتِ قانون کا دعویٰ ہے کہ مجوزہ اصلاحات انصاف تک سب کی برابر رسائی کو یقینی بنائیں گی۔ یہ بات بجا ہے کہ حکومت، اپوزیشن یا جملہ اسٹیک ہولڈرز میں شامل افراد کی اکثریت فوجداری قوانین کے فرسودہ نظام سے عاجز ہے جس کی اصلاح ہونی چاہیے اور پارلیمنٹ کے توسط سے اس معاملے کو بہر حال منطقی انجام تک پہنچایا جانا چاہیے۔