واہ رے کراچی تیری قسمت

February 27, 2022

روشنیوں کا شہر کراچی کھنڈرات میں تبدیل ہو رہا ہے۔ اس لاوارث شہر کے ساتھ سب سے پہلے ایوب خان نے ناانصافی کی کہ راتوں رات دارالحکومت اٹھا کر اسلام آباد کے جنگلوں میں پہنچا دیا اور کراچی والے خاموشی سے تماشہ دیکھتے رہے۔ پھر جب پی پی پی کی پہلی حکومت آئی تو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے اُردو کو سندھ سے رخصت کیا پھر 10سال کے لیے نوکریوں پر کوٹہ سسٹم نافذ کر دیا۔ دوسرا مارشل لا لگا تو ضیاء الحق مرحوم نے اس کوٹہ سسٹم کو ختم کرنے کے بجائے مزید 10سال کے لیے بڑھا دیا۔ پھر پی ٹی آئی حکومت نے موخر کر دیا، اُس کی اتحادی ایم کیو ایم خاموشی سے تماشہ دیکھتی رہی۔ نصف صدی بیت چکی ہے، ملازمتوں پر ایسی بندش پاکستان کے کسی صوبے میں نہیں ہے، 3جمہوری حکومتوں کے باوجود صدور آصف علی زرداری، (مرحوم)ممنون حسین اور ڈاکٹر عارف علوی کا تعلق کراچی سے رہا مگر سب خاموشی سے اپنے اپنے ادوار میں کراچی کو اجڑتا ہوادیکھتے رہے۔ پی پی پی نے خصوصی طور پر متحدہ کے سابقہ دور میں ایک اہم ادارے کے ڈی اے (کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کو سندھ بلڈنگ اتھارٹی کا نام دے کر ختم کر دیا، کراچی روڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کو سندھ روڈ اتھارٹی، کے ایم سی کو سندھ بلدیات کے ماتحت کرکے اس کے میئر کو مفلوج کر دیا۔ الغرض کراچی کی عملی اور نفسیاتی برتری کو آہستہ آہستہ بانیٔ متحدہ کے تعاون سے ختم کر دیا گیا۔ بہت سے راز مرحوم رحمٰن ملک اپنے ساتھ لے گئے۔

ٹیکس وصولی کے اعداد و شمار میں بتایا جاتا ہے کہ 82فیصد بجٹ کا بار کراچی نے اٹھایا ہو ا ہے اور یہ بڑھتا جا رہا ہے، بقایا 18فیصد پورے ملک سے وصول ہوتا ہے۔ کراچی کی سمندری اور ہوائی پورٹس سے 95فیصد ٹیکس وصول ہوتا ہے، بقایا 44ڈرائی پورٹس جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں، سے صرف 5فیصد ٹیکس وصول ہوتا ہے۔ 70فیصد سے زائد ٹیکس دینے والا شہر مرکز اور صوبائی حکومت کے درمیان فٹ بال بنا ہوا ہے۔ ستم ظریفی تو دیکھئے، 82فیصد ٹیکس دینے کے باوجود دیگر صوبوں اور مرکز میں نیلی پیلی ٹرینیں، بس، پل، سڑکیں، ہائی ویز اس کے پیسوں سے بن چکے ہیں۔ کراچی کو چند گرین بسوں پر ٹرخا دیا گیا ہے۔ سندھ حکومت سارا بجٹبہت ہوشیاری سے ہضم کر جاتی ہے اور مرکز سے امداد کی توقع رکھتی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان پیپلز پارٹی اور کراچی کے ستارے شروع ہی سے آپس میں نہیں ملے اور ایک دوسرے سے ٹکراتے رہے۔ سب سے پہلے بانی پی پی پی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اردو اور سندھی زبانیں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوئیں۔ پھر پاکستان کے واحد صوبہ سندھ میں کوٹہ سسٹم کا نفاذ ہوا اور کراچی کے نوجوانوں کی نوکریوں پر پہرا بٹھا دیا گیا جو صرف 10سال کے لیے تھا مگر آج تک جاری ہے۔ پھر اس کے خلاف MQMمیدان میں آئی اور پوری مہاجر برادری نے اس کا بھرپور ساتھ دیا مگر وہ مہاجر کاز کے درپردہ مہاجروں کے مفادات کا ہی سودا کرتی گئی اور ایک ایک کرکے کراچی کے ادارے سندھ کے ہاتھوں فروخت ہوتے گئے، ایک ایک ادارہ سندھ حکومت نے لے کر خود ٹیکس کمایا مگر کہیں بھی نہیں لگایا، صوبے کے حکمران اس لیے نالاں ہیں کہ کراچی والے پی پی پی کو ووٹ نہیں دیتے لہٰذا پی پی پی والے کراچی اور حیدرآباد کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتے ہیں۔

اب کراچی کی حالت یہ ہے کہ کراچی کے تمام بڑے اداروں، اسپتالوں، کالجوں پر غیرمقامی افراد تعینات ہیں۔ اس وقت کمشنر کراچی، ڈپٹی کمشنر، ڈائریکٹر جنرل بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے ( KDA)،ڈائریکٹر جنرل لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی (LDA)،ڈائریکٹر جنرل ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (MDA)ایم ایس جناح میڈیکل سینٹر، سربراہ کارڈیو ویسکولر ڈیزیز(NICVD) ،ایم ایس سول اسپتال، سربراہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ڈیزیز، ایم ایس کورنگی اسپتال، ایم ایس لیاری جنرل اسپتال، ایم ایس سعود آباد اسپتال، ایم ایس نیو کراچی اسپتال کے علاوہ کراچی کے 106تھانوں میں سے 105تھانوں میں غیرمقامی ایس ایچ او تعینات ہیں، 145فعال کالجز میں سے 132کالجوں میں غیرمقامی پرنسپل تعینات ہیں، سارے میونسپل کمشنرز، ڈی ایس پی، ایس پی، ایس ایس پی غیرمقامی ہیں حتیٰ کہ اس شہر میں بھکاری، جرائم پیشہ افراد، لینڈ مافیا بھی غیرمقامی ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیاں مقامی ہیں۔

ان تمام حقائق کے باوجود جب کراچی والے الگ صوبے کی بات کرتے ہیں تو یہی حکمران ان کو آنکھیں دکھاتے ہیں کہ صوبہ نہیں بنے گا۔ کیا کراچی سندھ کا حصہ نہیں ہے، جس سے سوتیلوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ کراچی پر جب بھی کوئی آفت یا بارش کی وجہ سے مصیبت آتی ہے تو پھر مقامی رفاہی ادارے بیت السلام، عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ، سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ، انصار برنی ٹرسٹ، ایدھی اور چھیپا کے نوجوان وغیرہ ہی مدد کو آتے ہیں۔ جبکہ سندھ حکومت اور مرکزی حکومت بالکل خاموش اور لاتعلق رہتی ہے۔کراچی آخر کب تک لا وارث رہے گا؟ گزشتہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی 2کروڑ دکھائی گئی ہے جبکہ موجودہ آبادی 3کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ ایم کیو ایم جو اپنے آپ کو کراچی کی نمائندہ جماعت کہلواتی ہے اور مرکزی حکومت کی حلیف بھی ہے، اس ناانصافی کے خلاف کوئی آواز بلند کیوں نہیں کرتی؟