ن لیگ کا ٹکٹ اور کرپٹو کرنسی!

March 20, 2022

آزاد مورخ لکھ رہا ہے کہ تاریخِ انسانی میں ایک ایسی دہائی بھی آئی جس میں 1امریکی اور 2ایشیائی سمیت 3سیاستدانوں کو مقبولیت کے جعلی پائیدانوں پر بٹھایا گیا، ایجنڈا مقرر کرکے اقتدار کی شیرینی پلیٹ میں رکھ کر ان کو پیش کی گئی، ان کے ادوار میں چرب زبانی فنِ عظیم ٹھہری، سر عام سرکاری طور پر جھوٹ بولنے پر اعزاز بانٹے جاتے رہے، اظہار منافقت پر اضافی پوائنٹس کی ریوڑیاں بھی بانٹی گئیں، کارِ ریاکاری پر دستارِ فضلیت پہنائی جانی چلن بنا دیا گیا، باقاعدہ پیادے مقرر کیے گئے جو 24گھنٹے اقدامِ دھوکہ دہی پر خراجِ تحسین کے ڈونگرے برساتے رہے۔

سہولتیں و انتظامی کنٹرول کے باوجود ان تینوں جعلسازوں نے اپنی پالیسیوں کی بدولت خود کو بدنامی کے بھنور میں پھنسا لیا، پہلے کو اقتدار سے بیدخلی کا سرٹیفکیٹ تھمایا گیا تو وہ نشئی ریچھ کی طرح بگڑ گیا اور دنیا بھر کے سامنے ملکی تکریم کا دھڑن تختہ کردیا، دوسرے کی سیاست کے بخیے عام عوام پارٹی نے کچھ اس طرح سے ادھیڑ دیے ہیں کہ انہیں مرمت کرنا ناممکنات میں شامل ہے، تیسرے کے حالات بھی دونوں سے کچھ مختلف نہیں ہیں، اس کی فانی ظاہری خوبصورتی کو فریب اور سراب کی حد تک گلیمرائز کیا گیا، مسلط کرنے سے پہلے ایک ایسا نائیک بنا کر پیش کیا گیا جیسے اسے بیک وقت معاشی، معاشرتی، سیاسی اور بین الاقومی امور میں بیک وقت مہارت حاصل ہو لیکن جوں جوں امتحان ہوتے گئے وہ فیل ہوتا چلا گیا۔

اپنی پاٹ دار آواز اور انتہا درجے کی مصنوعی اداکاری کے جوہر دکھائے، اس کے حواری بھی اسی کی قسم کے مکالمے ادا کررہے ہیں، اسے اپنی چرب زبانی پر خوب ملکہ حاصل ہونے کا اتنا زعم ہے کہ خدا کی پناہ، کبھی بھی کہیں بھی کوئی بھی اس کے زبانی حملوں سے محفوظ نہیں رہا، یہ تو سچ ہے کہ لفظوں کے دانت نہیں ہوتے لیکن وہ کاٹتے ہیں، کبھی تو اتنا زخمی کر دیتے ہیں کہ رشتوں ناطوں کی بحالی ناممکن ہو جاتی ہے، ایک بات اس کی بالکل درست ہے کہ وہ تبدیلی لایا ہے، واقعی اس نے خوشحالی کو بدحالی، ترقی کو پسماندگی، عروج کو زوال، بہتری کو کمتری، اچھائی کو برائی، آسانی کو مشکل اور بہار کو خزاں میں بدل دیا ہے یہاں تک کہ لوگوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھی غم میں تبدیل کردیا ہے۔

ایجنڈا کےتحت وہ ملک کو دیوالیہ کرکے دانت نکال کر دہراتا رہا موگیمبو خوش ہوا، جس طرح امریش پوری کے بغیر بھارتی فلم مسٹر انڈیا مکمل نہیں ہوتی ،کچھ اسی طرح اس شخص کے بغیر دیوالیہ ملک کا تصور مکمل نہیں ہو سکتا، اقتصادی میدان میں صفر بٹا صفر کارکردگی پر اس قدر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ شاید ہی تاریخ میں کسی نے کیا ہو، روز اول سے آج تک وہ حالتِ انتشار میں ہے، کبھی مخالفین کو پابندِ سلاسل کرکے آوازے کستا رہا کبھی دوسروں کو دھمکاتا رہا،ہر ناکامی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنا اس کا خاصہ ثابت ہوا۔

دورانِ اداکاری کبھی وہ روا داری سے محروم پریم چوپڑا بن جاتا ہے اور کبھی محسن کشن جبلت سے لبالب گلشن گروور کا لبادہ اوڑھتا رہا، نائیک کے لباس میں اس نے لوٹ مار کے وہ ریکارڈ قائم کیے ہیں جو کبھی ٹوٹ نہیں پائیں گے اب تو مکمل طور پر کھل نائیک ثابت ہو چکا ہے، اس نے جیتے جی کروڑوں کو موت کے حوالے کردیا ہے اور پھر بھی بضد ہے کہ نجات دہندہ وہی ہے، اپنا انجام سامنے دیکھ کر بھی وہ شکست ماننے کو تیار نہیں، اب وہ شعلے کا گبر سنگھ بن کر پوچھتا پھر رہا ہے کتنے آدمی تھے؟ جس جماعت کی سیاست ختم کرنے کی قسم کھائی گئی تھی آج اسی ن لیگ کا ٹکٹ کرپٹو کرنسی جتنا قیمتی ہو چکاہے، سیاست کے بادشاہ کا تاج ایک بار میاں نواز شریف کے سر سجنے کو ہے اور موسمی بٹیروں کا خوفناک انجام قریب آن پہنچا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)