بدحالی کا موسم

September 23, 2013

پاکستان پر دہشت کا موسم اترا ہوا ہے۔ بدامنی، بے روزگاری، مہنگائی اور وحشت سمیت تمام برے ثمرات اسی موسم کے ہیں۔ اس موسم کی تصویر بڑی بھیانک ہے، اغواء برائے تاوان، خواتین کی بے حرمتی اور ہر طرف جرائم کی آگ معمول بن کے رہ گئے ہیں۔ حکمرانوں سے کچھ عرض کریں تو انہیں ناگوار گزرتا ہے مگر کیا کیا جائے حکومت وقت ہی سے کہا جاسکتا ہے کس سے کہیں حکومتیں ہوتی کس لئے ہیں، لوگوں کے جان و مال کا تحفظ کس کی ذمہ داری ہے۔ اس منحوس صورتحال سے ہر کوئی پریشان اور بے حال ہے۔ چند روز پیشتر مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر بیگم نجمہ حمید وزارت داخلہ کی خصوصی کمیٹی سے بائیکاٹ کرکے نکل گئیں، وقت رخصت آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی تھی، نجمہ حمید پرانی مسلم لیگی ہیں، ایک زمانے میں صوبائی وزیر بھی رہیں، مسلم لیگ پنجاب کی صدر بھی، بیگم کلثوم نواز کے مشکل ترین حالات میں نجمہ حمید لمحے لمحے کی ساتھی رہیں مگر آج ان کے اپنے ایک عزیز کو اغواء کیا جاتا ہے، تین کروڑ روپے وصول کئے جاتے ہیں، وہ رقم ادا کرتا ہے مگر دل برداشتہ ہو کر دھرتی کو چھوڑ جاتا ہے جب یہ معاملہ وزارت داخلہ کی خصوصی کمیٹی میں زیر بحث آتا ہے تو آئی جی پولیس بے بسی کا اظہار کرتے ہیں یہی بے بسی نجمہ حمید کے آنسوؤں کا سبب بنی۔
پولیس کی ساری پھرتیاں تو اس روز بے نقاب ہوگئی تھیں جس روز سکندر اسلام آباد کا ”سکندر“ بن بیٹھا تھا۔ اب طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے گئے ہیں، ایسے لوگوں کے سامنے جو نہ ریاست کے آئین کو مانتے ہیں نہ ریاست کی عدالت کو بلکہ وہ اپنے ہی طرز حکومت کے قائل ہیں، معاشرے کو دہشت دینے والوں سے مذاکرات سمجھ سے باہر ہیں۔ مذاکرات اس سے ہوتے ہیں جس کی حیثیت تسلیم کرلی جائے، یہ تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کے پورے جسم کو چھلنی کررکھا ہے، بہت سے گھروں میں صف ماتم انہی کے باعث بچھی، کئی اسکول، کالج برباد ہوئے، خوشحالی، بدحالی میں تبدیل ہوئی، عورتوں پر ستم، عورتوں پر زمین تنگ انہی کے طفیل ہوئی، ان کا علاج سخت گیر آپریشن کے علاوہ کچھ نہیں۔
پاکستان صوفیاء کی دھرتی ہے، صوفیا نے سماج میں محبت تقسیم کی، انسانیت کا احترام سکھایا، امن کا پیغام دیا مگر یہ خود کو اسلام پرست کہنے والے صوفیاء کے مزارات پر حملہ آور ہوتے ہیں، امن کو آگ لگاتے ہیں اور حضرت محمدﷺ کی تعلیمات کو بھول جاتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺنے عورت کو بہت مقدم مقام دیا، عورتوں کی تعلیم پر زور دیا بلکہ فرض قرار دیا، افسوس بصد افسوس کہ آج ہمارا معاشرہ عجیب بن گیا ہے، عورتیں تو عورتیں رہیں بچیاں بھی ستم سے پاک نہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے جہان بھر کی برائیاں ہمارے معاشرے میں جمع ہوگئی ہوں۔
طاقتور مافیاز میں جینے والا معاشرہ طرح طرح کے شکنجوں میں ہے۔ ڈالر کی قیمت بڑھتی جارہی ہے، شنید ہے کہ یہ طوفان ابھی نہیں رکے گا، ڈالر کی قیمت ایک سو تیرہ روپے فی ڈالر ہوگی۔ بینکوں میں شرح سود بڑھا دی گئی ہے اور آج کل طاقتور معاشی مافیا خوشی سے لوٹ پوٹ ہورہا ہے، ملک میں اترتی ہوئی غربت پر مسکرا رہا ہے، الزام ہے کہ ایک اہم شخصیت ڈالر کی خریداری میں مصروف ہے، مارکیٹ کا سارا ڈالر خریدا جارہا ہے تاکہ اگلے چند ہفتوں میں معاشی مافیا کو مضبوط سے مضبوط ترین کیا جاسکے۔
تمام سفر پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ ڈالر 1954ء میں صرف تین روپے کا تھا اور 1970ء میں پانچ کا مگر آج ایک سو آٹھ کے عدد کو چھو چکا ہے۔ ایک خاص آدمی کو جب بھی اختیار ملتا ہے ڈالر مہنگا ہوجاتا ہے، اصل بات خدا جانتا ہے حقائق بتاتے ہیں کہ جب انہیں پہلی مرتبہ اختیار ملا تو ڈالر قریباً پندرہ بیس روپے مہنگا ہوا، بار دگر تیس روپے اور اس مرتبہ سفر جاری ہے۔ داستان دراز میں قرضے لے لو اور قرضے دے دو کے سوا کچھ نہیں۔
رہ گئے ادارے، تو ان کی حالت غیر کیا بیان کروں کہ 1960ء میں پی آئی اے دنیا کی دوسری بڑی ایئر لائن تھی آج شمار سو میں بھی نہیں۔ بدحالی اور بدحالی، کرپشن اور کرپشن، آئینے میں اور کچھ نہیں جو کسر رہ گئی تھی وہ اس ایئر لائن کے ایک پائلٹ کی حالت غیر میں جہاز اڑانے کی خواہش نے پوری کر دی جس سے ایئر لائن کے حصے میں فقط بدنامی آئی۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ یہ پائلٹ مبینہ طور پر(ر)جنرل فیض علی چشتی کے صاحبزادے بتائے جاتے ہیں۔اگر بھارت میں لالو پرشاد یادیو سا ان پڑھ آدمی ریلوے درست کرسکتا ہے، منافع بخش بنا سکتا ہے کل کا طالب علم رہنما خواجہ سعد رفیق کیوں نہیں؟
پاکستان کے حالات کا سدھار باتوں سے نہیں، ایک بڑے آپریشن ہی سے ممکن ہے ایک ایسا آپریشن جو جبر کو کچل ڈالے، ایک ایسا آپریشن جو کرپشن کے بتوں کو پاش پاش کرڈالے، جو کرپٹ افراد کی بیخ کنی کر ڈالے۔ جب تک ہڈیوں سے کرپشن نہیں نکلے گی، حالات نہیں سدھریں گے، جب تک مفادات میں لپٹی مصلحت رہے گی، ستم گر، ستم کرتے رہیں گے۔
آگ کے طوفان میں دل دکھی ہے، درد کے ماروں کو درماں میسر نہیں، چارہ گری یہی ہے کہ بددیانتی کچل دی جائے، کچلتے وقت مصلحتوں کو نظرانداز کردیا جائے۔
صاحبان عقل و دانش متوجہ نہ ہوں تو عام آدمی توجہ دے، فقط ایک سوال ہے کہ رسولِ خداﷺ کا یہ قول کس قدر اہم ہے کہ ”جس نے ملاوٹ کی، وہ ہم میں سے نہیں“۔ کیا پاکستان میں عام استعمال کی اشیاء مثلاً دودھ، مرچیں، گھی وغیرہ ملاوٹ سے پاک ہیں، کیا دوائیاں جعل سازی سے محفوظ ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو پھر یہ سوال اہم ہے کہ حدیث مبارکہ کی روشنی میں کیا یہ ملاوٹ کرنے والے دائرہ اسلام میں ہیں بھی یا نہیں؟
بدلی ہوئی صورت حال، بدحالی پر مشتمل ہے، بدحالی کے اس موسم میں اظہر ادیب کے چند اشعار رہ رہ کے یاد آرہے ہیں کہ سارا موسم گواہی دے رہا ہے کہ:
روشنی حسب ضرورت بھی نہیں مانگتے ہم
رات سے اتنی سہولت بھی نہیں مانگتے ہم
پھر بھی وہ تخت نشیں خوفزدہ رہتا ہے
اپنے حصے کی وراثت بھی نہیں مانگتے ہم
سنگ کو شیشہ بنانے کا ہنر جانتے ہیں
اور اس کام کی اجرت بھی نہیں مانگتے ہم
کسی دیوارکے سائے میں ٹھہر لینے دے
دھوپ سے اتنی رعایت بھی نہیں مانگتے ہم
ساری دستاروں پہ دھبے ہیں لہو کے اظہر#
ایسے کوفے میں تو عزت بھی نہیں مانگتے ہم