عجوبہ

May 01, 2022

اس دنیا کی بہت سی چیزیں اپنی اپنی جگہ ایک عجوبہ ہیں۔ دماغ ان کی تہہ میں اترنہیں سکتا۔ ایک چیز ہوتی ہے، حدیث میں جسے اشیا ء کی حقیقت کا علم کہا گیا ہے۔ رسالت مآبؐ اشیاء کی حقیقت کا علم جانتے تھے۔ ایک کیمیا دان اس نظر سے چیز کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کی تشکیل میں کون سے عناصر استعمال ہوئے ہیں۔ کرسی کیا ہے ؟ لکڑی کیا ہے ؟ کاربن لیکن تیل بھی کاربن ہے۔ اسی طرح اینٹوں سے لے کر برتنوں اور گھڑے‘ ہر چیز مٹی کی بنی ہوئی ہے لیکن مٹی کیا ہے ؟ کس عنصر سے بنی ہے ؟

آہستہ آہستہ مختلف چیزوں کی کمپوزیشن کا انسانی علم بتدریج بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ انسان مختلف عناصر کو ملا کر ان کے نتائج کا لیبارٹری میں جائزہ لینے لگا تھا۔اسی طرح ایک زمانہ تھا‘ جب کیمیا دان سر توڑ کوشش کر رہے تھے کہ ادنیٰ دھاتوں کو قیمتی دھات‘ یعنی سونے میں بدل سکیں۔انسان اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ ایک عنصر کو دوسرے میں بدل تو سکتاہے‘ لیکن اس کی لاگت اتنی زیادہ ہے کہ یہ فائدے کی بجائے نقصان کا سودا ہے۔ سورج یا کسی بھی ستارے کے اندر یہ کام قدرتی طور پر ہوتا رہتا ہے۔ انتہائی خوفناک حرارت اور دبائو۔ ہر طرف انتہائی خوفناک ریڈی ایشن ہوتی ہے۔ ایٹم بم پھٹ رہے ہوتے ہیں۔ اس ماحول میں وہاں ایک عنصر سے دوسرا عنصر بن رہا ہوتا ہے۔ ہائیڈروجن سے ہیلیم‘ ہیلیم سے پھر مزید بھاری عناصر۔

اس پروسیجر کو زمین پر دہرایا جا سکتا ہے۔ چین میں یہ تجربہ کیا گیا ہے لیکن انسان کے وسائل اور استعداد محدود ہے۔ سورج برابر بڑی بھٹی کون لگائے۔ اتنے بڑے اور قیمتی سیٹ اپ کیسے بنائے جائیں۔ لوہے جیسے جو عناصر انتہائی بھاری ہیں اور جو سورج کے اندر نہیں بن سکتے تو وہ فنا کے عمل کے دوران پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے ہم ہر چیز کی کمپوزیشن جانتے چلے جاتے ہیں کہ اس میں کیا چیز استعمال ہوئی ہے۔ انسان نے مٹی کی کیمیائی کمپوزیشن کا جائزہ لیا تو اس کے اندر جاندار اور بے جان چیزوں کا ایک پورا جہان آباد تھا‘ ایک مکمل جہانِ حیرت۔ انسان پڑھتا گیا۔ اس نے اپنے جسم کی کیمیائی کمپوزیشن معلوم کی۔ پتہ چلا کہ جو 92عناصر ستاروں کے مرکز میں بن رہے ہیں‘ انہی میں سے کچھ عناصر سے ان کا جسم اور دماغ بنا ہے۔ آپ کا جسم 65فیصد آکسیجن ہے‘ 18.5فیصد کاربن‘ 9.5فیصد ہائیڈروجن‘ 3.2فیصد نائیٹروجن‘ 1.5فیصد کیلشیم‘ ایک فیصد فاسفورس۔ یوںیہ ہو گیا؛ 99فیصد۔

یہاں سے آگے حیرت کی ایک نئی گزرگاہ ہے۔ ہر عنصر کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں۔ وہ ہمیشہ ان خصوصیات کے مطابق عمل کرتاہے۔ جیسے ہائیڈروجن ہے‘ اس کے قریب کوئی شعلہ جل اُٹھے تو پھر تمام ہائیڈروجن بھڑک اٹھتی ہے۔ اسی طرح کاربن اور آکسیجن سمیت ہر عنصر کی اپنی خصوصیات ہیں۔ لوہے کو پانی چھوئے گا تو لازماً وہ زنگ پکڑے گا۔

آکسیجن ہمیشہ تعامل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ لوہے سمیت ہر چیز کے آکسائیڈ بناتی رہے گی۔ لوہے کو زنگ لگنے کی وجہ یہی آکسائیڈ ہے۔ اب آکسیجن اور لوہے کو اکھٹا رکھ دیا جائے‘ تو ان سے کہا جائے کہ آپس میں تعلق نہیں بنانا تو ایسا ممکن نہیں؛الّا یہ کہ اس پہ رنگ کر دیا جائے۔ وہ خود کو روک نہیں سکتے۔ یہ ان کے لیے ناممکن ہے۔

جتنے بھی عناصر ہیں‘ ان کے پاس ہر صورتِ حال میں ایک ہی آپشن ہوتا ہے۔ اسی پر انہوں نے عمل کرنا ہوتا ہے‘ لیکن پھر ان عناصر کو جوڑ کر انسان بنا دیا گیا۔ عناصر کو جوڑنے میں خدا نے ایسی کاریگری کی ہے کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے۔ انسان کے پاس مکمل طور پر اختیار موجود ہے‘ ہر معاملے میں۔ گو کہ اس کا دل چاہتا ہے گناہ کرنے کو‘لیکن وہ چاہے تو گناہ کرے اور چاہے تو اپنے قدم روک لے۔ ایسا لگتا ہے کہ جب گناہ کی طرف انسان راغب ہو رہا ہوتاہے تو اس کے اندر موجود عناصر تعامل کی خواہش سے بے چین ہو رہے ہوتے ہیں۔ کبھی آپ نے ایک بچے کو دیکھا ہے، جو دوسرے بچے کے ہاتھ سے کھلونا چھیننا چاہتا ہو لیکن والدین کے سمجھانے پہ رُک جائے۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ دو میں سے ایک پہ عمل کرنے کا اختیار آدمی کو کیسے سونپا گیا۔ 99.9فیصد لوگ ہمیشہ اپنے رجحان (Tendency) پر عمل کرتے ہیں؟ صفر اعشاریہ ایک فیصد نہیں کرتے۔ سید علی گیلانی کی طرح، وہ جیلوں میں ڈالے جاتے ہیں۔ انہیں پتھر مارے جاتے ہیں۔ ان کے جسم آرے سے کاٹ دئیے جاتے ہیں‘لیکن وہ اپنی Tendencyپر نہیں چلتے‘بلکہ الوہی رہنمائی پہ چلتے ہیں۔ یہ بہت حیرت انگیز ہے۔

انسان‘ چونکہ مختلف عناصر سے مل کر بنے ہیں‘ اس لیے اس کے مزاج میں ان عناصر کی خصوصیات جھلکنا فطری بات ہے۔ جب آپ کسی نشے یا گناہ کے عادی ہو جاتے ہیں تو اس وقت کیا ہوتاہے؟ آپ کے دماغ کے خلیات کے درمیان ایسے کیمیکلز خارج ہوتے ہیں، جو لذت انگیز ہوتے ہیں۔ وہ بار بار آپ کو اکساتے ہیں کہ ایک بار پھر اس عمل کو دہرایا جائے۔ یہ بات انتہائی مشکل ہوتی ہے کہ آپ کا دماغ جس لذت سے گزر چکا ہے‘ جس کے دوران اس کے دماغ میں لاکھوں نئے کنکشنز بن چکے ہیں‘ انہیں ختم کیا جا سکے۔ بہت طویل وقت اور جدوجہدکے بعد ہی انسان اس پر قابو پا سکتا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ نشے باز کو گندگی سے کسی طرح کی کراہت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ مکمل طور پر جانور بن جاتا ہے۔وہ کوڑے سے چیزیں اٹھا کر کھا سکتا ہے۔

بہرحال، کبھی کبھی آدمی یہ سوچتا ہے کہ کسی کام پہ اس کا جی للچاتا ہے تو کیااس کا سبب جسم میں موجود عناصر کی تعامل کرنے کی خاصیت ہے یا کچھ اور؟