آئے بھی اکیلا، جائے بھی اکیلا

May 19, 2022

دنیا میں ہر انسان ایک مقررہ وقت کے لئے آتا ہے اور جب وہ وقت پورا ہو جاتا ہے تو پھر واپسی کا بلاوا آجاتا ہے، انسان آئے بھی اکیلا، جائے بھی اکیلا، یہ دنیا چار دنوں کا میلہ۔ تاہم جو لوگ اس مقررہ وقت میں انسانیت کی فلاح کیلئے عظیم کارنامے انجام دیتے ہیں وہ رہتی دنیا تک اپنا نام تاریخ میں امر کر لیتے ہیں۔ میرے ذہن میں یہ خیالات متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زید النہیان کے انتقال کے بعدکراچی میں یو اے ای قونصل خانے میں تعزیت کرتے ہوئے آئے، دنیا کے اہم ترین حکمرانوں میں شمار ہونے والے شیخ خلیفہ بن زید النہیان کی وفات سے متحدہ عرب امارات ایک انسانیت کا درد رکھنے والے ، سیاسی بصیرت ، فہم و فراست اور مذہبی آزادی اور رواداری کا ادراک رکھنے والے عظیم لیڈر سے محروم ہو گئی ہے۔تاریخی طور پر سات ریاستوں پر مشتمل متحدہ عرب امارات 1971میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا، یو اے ای کے بانی شیخ زاید بن سلطان عرب دنیا کے ایک مقبول لیڈر تھے جو متوازن انداز میں اپنے ملک و قوم کی ترقی اور سربلندی کے خواہاں تھے،شیخ زاید کا کہنا تھا کہ خدانے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے، اسلئے امارات میں بسنے والے سب لوگوں کو ملکی قوانین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی مرضی کا رہن سہن اختیار کرنے کی آزادی ہونی چاہئے، مرحوم صدر النہیان خواتین کی آزادی اور مذہبی ہم آہنگی کے بھی داعی تھے، انہوں نے اپنے دور اقتدار میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو عبادت گاہیں تعمیر کرنے کی اجازت دی۔ان کی وفات کے بعدان کے جانشین اور بڑے بیٹے شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے ان کا مشن جاری رکھا، شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے اپنے آپ کو ایک نمایاں اور ہردلعزیز لیڈر کے طور پر منوایا جنکی امن پسندی ، سیاسی بصیرت اور برداشت ضرب المثل سمجھی جاتی تھی۔ میں شیخ خلیفہ بن زید النہیان کو ہر لحاظ سے ایک وژنری اور رول ماڈل لیڈر سمجھتا ہوں جن کی قیادت میں یو اے ای نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی،آج متحدہ عرب امارات کوبلند وبالا عمارتوں، سڑکوں کے جال، برق رفتار سفری سہولتوں پر مشتمل دنیا کے بہترین انفراسٹرکچرکی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے، شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے جدید طرز زندگی کے تقاضوں کو بھا نپتے ہوئے اپنے ملک کو ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں شامل کرنے کے لئے اپنے والد کی موثر پالیسیوں کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ مزیدبہتری کویقینی بنایا۔ علاقائی سطح پراسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کا حساس معاملہ ہویا پھریمن میں حوثیوں کی بغاوت ، شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے ہر ایشو کو احسن انداز میں ہینڈل کیا ، مرحوم شیخ کے دور اقتدار میں متحدہ عرب امارات نے مریخ پر پہلا خلائی مشن بھیج کر ایک ریکارڈ قائم کیا، انہوں نے عالمی ٹیلنٹ کو راغب اور بیرونی سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے گولڈن ویزا جیسی پر کشش پالیسیاں متعارف کرائیں۔ یہ امارتی حکمرانوں کی دوراندیشی پر مبنی امن پسندانہ پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات کو برداشت اور رواداری کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے،یہاں کسی قسم کی مذہبی شدت پسندی کیلئے کوئی جگہ نہیں بلکہ یو ا ے ای دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں وزارت برائے برداشت و رواداری قائم ہے، اس وزارت کے تحت مختلف مثبت سماجی سرگرمیوں کا انعقاد باقاعدگی سے ہوتا ہے۔آج متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زید النہیان ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن ان کا نام اپنے عظیم اقدامات کی بدولت ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا ہے، اس موقع پر میں اماراتی عوام سے ان کے عظیم لیڈر کی وفات پر دِلی تعزیت کرتے ہوئے نومنتخب قیادت کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتاہوں، میں سمجھتا ہوں کہ متحدہ عرب امارات کی حکومتی پالیسیاں دنیا کے ہر اس ملک کیلئے رول ماڈل ہیں، جو اپنے عوام کی ترقی و خوشحالی کو یقینی بنانا چاہتا ہے،ہمارے حکمرانوں کو امارتی حکمرانوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ایک قلیل عرصے میں انہوں نے اپنے ملک کو ترقی یافتہ قوموں کی فہرست میں لاکھڑا کیا۔ اقتدار کا آنا جانا لگا رہتا ہے ، آج ہم ہیں کل ہماری جگہ کوئی اور ہوگا، یہی قدرت کا نظام ازل سے ابد تک جاری رہے گالیکن صحیح وقت پر صحیح فیصلہ ہی کامیابی کا راز ہے، اگر ہمارے حکمراں بھی اپنے دورِ اقتدار کو خدا کی امانت سمجھتے ہوئے ملک و قوم کی بہتری کی خاطر صحیح فیصلے کرنے کی روش اپنالیں تو ہمارا پیارا وطن بھی عالمی برادری کی نظر میں نمایاں مقام حاصل کرسکتا ہے۔ امید کرتا ہوں شیخ محمد بن زید النہیان بطور نئے صدر یو اے ای برداشت، رواداری اور صبر و تحمل پر مبنی روشن روایات کوزندہ رکھیں گے تاکہ دنیا ان روایات مستفید ہوتی رہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)