علم و عمل کا روشن باب ’حضرت امام جعفر صادق ؒ ‘

May 20, 2022

آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی

امام جعفر صادق ؒ نے 17ربیع الاول80ہجری میں مدینہ النبی ؐ میں صفحہ ارضی پر قدم رکھا۔ آپ کے والد گرامی امام محمد باقرؒاوردادا امام زین العابدینؒ تھے۔ آپ کی والدہ بزگوار فاطمہ (کنیت ام فروہ) بنت قاسم بنت محمد بن حضرت ابو بکرؓ تھیں۔ آپ اپنے زمانے کی خواتین میں بلند مقام رکھتی تھیں۔امام جعفر صادقؒ کے نانا قاسم بن محمد ابن ابوبکر ؓ مدینہ کے سات عظیم فقہا میں شامل تھے۔ امام جعفر صادقؒ کی کنیت ابو عبداللہ‘ابو اسماعیل‘ابو موسیٰ اور القاب صادق‘فاضل‘طاہر‘منجی زیادہ مشہور ہیں۔ امام جعفر صادق ؒنے اسلامی تعلیمات کی ترویج کے لئے بے پناہ کوششیں انجام دیں اور مدینے میں مسجد نبوی اور کوفہ شہر میں مسجد کوفہ کو جامعات میں تبدیل کردیا۔

جہاں انہوں نے ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی اور ایک عظیم علمی و فکری تحریک کی بنیاد ڈالی۔ ان جامعات کے مختلف مدارس میں لا تعداد افراد علوم فنون اسلامی کے گونا گوں شعبہ جات میں مصروفِ درس و تدریس تھے۔ صرف کوفہ کی مساجد میں امام جعفر صادقؒ کے حوزۂ علمیہ سے منسلک ہزارہا طلاب فقہ اور معرفتِ علوم اسلامی میں مصروف تھے جو امام کے بیانات‘ فرمودات یاد کرتے اور ان کے بارے میں تحقیق اور بحث و تمحیص فرماتے۔ تشنگانِ علم و حکمت دور دروازے سے آتے اورامام جعفر صادق ؒسے فیض یاب ہوا کرتے تھے۔ آپ کی درس گاہ کے فیض سے جہاں قدیم علوم کا احیاء ہوا، وہاں جدید علوم کی بھی بنیاد رکھی گئی۔ مسلمانوں میں نابغہ روزگار ہستیاں پیدا ہوئیں۔

احادیث و معرفت، دین و شریعت میں امام جعفر صادقؒ کے وضع کردہ چار سو اصول ہی کتب اربع کا منبع ہیں۔آپ کے گراں قدر‘بیانات‘فرمودات‘ارشادات نے جہالت اور گمراہی و ضلالت کے پردوں کو چاک کردیا۔ آپ نے پیغمبر اسلام ﷺ کے الہامی و آفاقی دستور حیات کو لوگوں کے سامنے اس طرح پیش فرمایا کہ لوگ دین و شریعت سے روشنا س ہوئے۔ آپ کے ممتاز شاگردوں میں ہشام بن حکم، محمد بن مسلم، ابان بن تفلب، ہشام بن سالم، مفصل بن عمر اور جابربن حیان کا نام خاص طور سے لیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک نے بڑا نام پیدا کیا، مثال کے طور پر ہشام بن حکم نے اکتیس کتابیں اور جابربن حیان نے دو سو سے زائد کتابیں مختلف علوم و فنون میں تحریر کی ہیں۔

جابربن حیان کو علم کیمیا میں بڑی شہرت حاصل ہوئی اور وہ بابائے علم کیمیا کے نام سے مشہور ہیں۔ الجبرا کے بانی ابو موسیٰ الخوارزمی نے بھی بالواسطہ امام جعفر صادقؒ کی تعلیمات سے فیض حاصل کیا۔ اہل سنت کے چاروں مکاتب فکر کے امام بلاواسطہ یا بالواسطہ امام جعفر صادق ؒکے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں، خاص طور پر امام ابوحنیفہؒ نے تقریبا'' دوسال تک براہ راست آپ سے کسب فیض کیا۔ آپ کے علمی مقام کا اعتراف کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ نے کہا ہے: '' میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ عالم کوئی اور شخص نہیں دیکھا۔'' ایک اور مقام پر امام ابوحنیفہؒ نے امام جعفر صادقؒکی خدمت میں گزارے ہوئے دو سالوں کے بارے میں کہا: اگر یہ دوسال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا۔

امام مالک بن انسؒ حضرت امام جعفر صادق ؒ کی علمی اور اخلاقی عظمت کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں نے ایک مدت تک جعفر ابن محمد کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کیا ، آپ مزاح بھی فرمایا کرتے۔ ہمیشہ آپ کے لبوں پر تبسم رہتا تھا۔ جب آپ کے سامنے رسول اللہ ﷺ کا نام مبارک لیا جاتا تو آپ کے چہرے کا رنگ زرد ہوجاتا تھا۔ میں نے نہیں دیکھا کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے حدیث بیان کی ہو اور وضو سے نہ ہوں۔ میں جب تک ان کے پاس آیا جایا کرتا ، میں نے نہیں دیکھا کہ وہ ان تین حالتوں سے خارج ہوں یا وہ نماز پڑھتے رہتے تھے، یا قرآن کی تلاوت کررہے ہوتے یا پھر روزے سے ہوتے تھے۔

شہاب الدین ابوالعباس احمد بن بدرالدین شافعی معروف بہ ابن حجر ہیتمی امام جعفرصادقؒ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ لوگوں نے آپ سے بہت سے علوم سیکھے ہیں ،یہ علوم مدینہ آنے والے زائرین و حجاج کے ذریعے ساری دنیا میں پھیل گئے اور ساری دنیا میں جعفر ابن محمد کے علم کا ڈنکا بجنے لگا۔اہل سنت کے بزرگ علماء میں سے ایک میر علی ہندی حضرت امام جعفر صادقؒ کی علمی اور اخلاقی عظمت کے بارے میں کہتے ہیں ،اس زمانے میں علم کی ترقی نے سب کو کشتہ بحث و جستجو بنادیا تھا اور فلسفیانہ گفتگو ہرجگہ رائج ہوچکی تھی۔

قابل ذکر ہے کہ اس فکری تحریک کی رہبری اس مرکز علمی کے ہاتھ میں تھی جو مدینہ میں پھل پھول رہا تھا اور اس مرکز کا سربراہ علی ابن ابی طالب کا پوتا تھا جس کا نام جعفر صادق تھا۔ وہ ایک بڑے مفکر اور سرگرم محقق تھے اور اس زمانے کے علوم پر عبور رکھتے تھے، وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اسلام میں فلسفے کے مدارس قائم کئے۔ ان کے درس میں صرف وہ لوگ شرکت نہیں کرتے تھے، جو بعد میں فقہی مکاتب کے امام کہلائے، بلکہ فلاسفہ، فلسفہ کے طلبہ بھی دور دراز سے آکر ان کے درس میں شرکت کرتے تھے۔

امام جعفر صادقؒ کی کرامات بھی لاتعداد ہیں جن سے شیعہ سنی کتب بھری پڑی ہیں۔ منصور دوانیقی کے ایک درباری کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ اسے پریشان دیکھا سبب پوچھا تو کہنے لگا جب تک میں امام جعفر صادقؒ کا کام تمام نہ کرلوں، آرام سے نہ بیٹھوں گا۔ اس نے جلاد کو بلایا اور کہا کہ میں امام جعفر صادق کو بلواتا ہوں، جب امام جعفر صادقؒ آئیں اور میں اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لوں تو تم انہیں قتل کردینا۔

درباری بیان کرتا ہے کہ جب منصور نے امام کو بلوایا تو میں ان کے ساتھ ہو لیا ،وہ زیر لب کچھ ورد فرما رہے تھے۔میں نے دیکھا کہ اچانک منصور کے محل میں ارتعاش و زلزلہ پیدا ہوگیا اور وہ اپنے محل سے ایسے نکلا جیسے کشتی سمندر کی تندو تیز لہروں سے باہر آتی ہے، منصور کا حلیہ عجیب تھا، وہ لرزہ براندام، برہنہ سر اور برہنہ پا امام جعفر صادقؒ کے استقبال کے لئے بڑھنے پر مجبور ہوگیا اور آپ کے بازو کو پکڑ کر اپنے ساتھ تکیہ پر بٹھایا اور کہنے لگا اے فرزند رسول ﷺ آپ کیسے تشریف لائے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا تو نے بلایا اور میں آگیا۔

منصور کہنے لگا کسی چیز کی ضرورت ہو تو فرمائیں۔ آپ نے فرمایا مجھے بجز واس کے کسی چیز کی ضرورت نہیں کہ تم مجھے یہاں نہ بلایا کرو۔ اس کے بعد امام جعفر صادقؒ تشریف لے گئے اور منصور ایسا سویا کہ اگلے روز دن چڑھے بیدار ہوا مجھے بلایا اور کہا کہ میں نے جعفر ابن محمد کو قتل کے ارادے سے بلایا تھا جیسے ہی وہ دربار میں داخل ہوئے تو میں نے ایک اژدھا دیکھا جس کے منہ کا ایک حصہ زمین پر تھا اور دوسرا میرے محل پروہ مجھے فصیح و بلیغ زبان میں کہہ رہا تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے ،اگر تم نے جعفر صادقؒ کو کوئی گزند پہنچائی تو تجھے تیرے محل سمیت دفن کردوں گا۔(شواہد النبوۃ۔ملاجامی ؒ)

امام جعفر صادق کی شہادت 25شوال اوربعض روایات میں 15 شوال 148ہجری کو منصور عباسی خلیفہ کے دورمیں ہوئی، جس دور میں کلمہ حق کہنا مشکل تھا جسے فتنوں کا دور کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ آپ نے جام شہادت نوش کرنا قبول کیا، مگر باطل کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ آپ کی قبراطہر جنت البقیع میں اپنی جدہ خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ اور اپنے اجداد امام حسنؓ‘امام زین العابدین اور امام باقر کے پہلو میں واقع ہے۔