• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ہمارے علاقے میں طالبات کا کوئی دینی مدرسہ نہیں ہے، ہم نے ایک مدرسہ قائم کیا ہے، مگر قرب وجوار میں خواتین معلّمات دستیاب نہیں ہیں، تو کیا ہم طالبات کی تعلیم کے لیے کسی باکردار مرد عالم کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں، جبکہ حجابِ شرعی کا پورا اہتمام ہو، اس کے جواز کی صورت کیا ہوگی ؟ (اسلم الرحمن حسینی، گھگھر پھاٹک، کراچی)

جواب: شریعتِ مطہرہ نے فطری تقاضوں کے سبب مرد وعورت کے درمیان دائرۂ کار متعین کیا ہے، عورت کو حجاب کا حکم دیا اور مردوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا، یعنی شریعتِ مُطہرہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کے لیے معاشرے کے ہر فرد کو پابند کرتی ہے کہ بدنگاہی اور بے حیائی سے دور رہیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’آپ مسلمان مردوں سے کہیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ شِعار ہے، بے شک، اللہ ان کاموں کی خبر رکھنے والا ہے، جنہیں تم کرتے ہو اور آپ مسلمان عورتوں سے کہیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ کریں مگر جو خود ظاہر ہو اور اپنے دوپٹوں کو اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں۔ (سورۃالنور:30-31)‘‘۔(۲) ترجمہ: ’’اے نبیﷺ !اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہیے کہ وہ(گھر سے نکلتے وقت ) اپنی چادروں کا کچھ حصّہ (اپنے منہ پر) لٹکا لیا کریں ، (سورۂ احزاب:59)‘‘۔

موجودہ دور میں لڑکیوں اور بچیوں کی تعلیم بلکہ دینی تعلیم ایک نازک اور اہم مسئلہ ہے، صحابیاتؓ کے علمی کارنامے تاریخِ اسلام کی رونق ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام نے خواتین کی تعلیم وتربیت کے لیے زرخیز مواقع مہیا فرمائے ہیں۔

(۱) ترجمہ:’’ حضرت مالک بن حویرث ؓبیان کرتے ہیں: ہم سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم لوگ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ جاؤ، انہیں دین کی تعلیم دو اور اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرو،(صحیح بخاری:6008)‘‘۔

(۲)ترجمہ:’’ حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں: خواتین نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کی: آپ سے دینی فائدہ اٹھانے میں مرد ہم پر غالب آگئے ہیں، آپ اپنی طرف سے ہمارے لیے ایک دن مقرر فرما دیں، آپ ﷺ نے ان سے ایک دن کا وعدہ فرمالیا، پھر اُس دن آپ ﷺ نے خواتین سے ملاقات کی اور انہیں وعظ ونصیحت فرمائی اورانہیں کچھ اعمال کا حکم دیا ،(صحیح بخاری:101)‘‘۔

مُتعدد صحابیاتؓ اسلامی علوم میں قرآن، حدیث، فقہ، فرائض میں کمال رکھتی تھیں، اُمّہات المؤمنین حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، حضرت اُمّ سلمہ اور صحابیہ حضرات اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہن نے پورا قرآن مجید حفظ کیا تھا، اُمّ سعد ؓقرآن مجید کا درس بھی دیتی تھیں۔ 

تفسیر میں حضرت عائشہ ؓ کو خاص کمال تھا، چنانچہ صحیح بخاری کے آخر میں ان کی تفسیر کا معتد بہ حصہ منقول ہے۔ روایت حدیث میں ازواجِ مطہرات عموماً اور حضرت عائشہؓ اور اُمّ سلمہ ؓ خصوصاً تمام صحابیات سے ممتاز تھیں۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ سے2210احادیث مروی ہیں، اِن میں سے 174متفق علیہ یعنی امام بخاری نے صحیح بخاری اور امام مسلم نے صحیح مسلم میں سنداً روایت کیا ہے، حضرت اُمّ سلمہ ؓنے 378 حدیثیں روایت کی ہیں، ان کے علاوہ اُمّ عطیہ ، اسماء بنت ابی بکر، ام ہانی اور فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہن بھی’’ کثیر الرّوایہ‘‘ گزری ہیں۔

ظاہر ہے کہ اگر طالبات کو دینی تعلیم کے لیے خواتین مُعلّمات کی خدمات دستیاب ہوں تو ضرور انہیں ترجیح دی جائے اور مرد مُعلّمین مقررنہ کیے جائیں، لیکن جہاں خواتین مُعلّمات کی خدمات دستیاب نہ ہوں اور بالغ طالبات کو باکردار ، متقی مرد عالم دین پڑھائے، تو حجاب لازم ہے اور کسی طور خَلوت نہ ہو بلکہ آن لائن پڑھانے میں بھی صرف ایک طالبہ کو نہ پڑھائے ،صرف ایک طالبہ ہو تو اگرچہ یہ صورت مکمل طور پر خَلوت کی نہیں ہے، لیکن حکماً خلوت ہے، فتنہ میں واقع ہونے کا اندیشہ ہے۔

لہٰذا ایک وقت میں صرف ایک طالبہ کو آن لائن پڑھانا فتنہ کے احتمال کی وجہ سے درست نہیں ہوگا، ہاں اگر اس ایک طالبہ کے ساتھ دوران درس اس طالبہ کا کوئی محرم مرد یا کوئی خاتون وغیرہ موجود ہوں تو یہ صورت جائز ہوگی۔اجتماعی کلاس کو پڑھانے میں بھی دورانِ درس غیر ضروری باتوں اور بے تکلفی سے قطعی طور پر اجتناب کرنا ہوگا۔

اَلْمَوسُوعَۃ الْفِقْہِیّۃ الکَوِیتِیۃ میں ہے: ترجمہ:’’ مردوں کے عورتوں کے ساتھ اختلاط کا حکم اس لحاظ سے مختلف ہوتا ہے کہ آیا یہ شرعی احکام کے موافق ہے یا نہیں؟ پس اگر اختلاط مندرجہ ذیل نوعیت کا ہو، توحرام ہے: (الف) اجنبی عورت کے ساتھ اکیلے رہنا اور اسے شہوت کی نگاہ سے دیکھنا،(ب) عورت کا بے حیا ہونا اور وقار سے گری ہوئی حرکات کرنا،(ج) گھومنا پھرنا، تفریح اور (اجنبی مرد کے) جسم کو چھونا، شادیوں، سالگرہ اور خوشی( عید) کے موقع پر گُھل مِل جانا۔ پس یہ صورتیں قواعد ِ شریعت کی مخالفت کے سبب حرام ہیں، (جلد2،ص:290)‘‘۔

مزید لکھتے ہیں: ترجمہ:’’خواتین کی تعلیم شریعت کے آداب کو مدنظر رکھتے ہوئے ہونی چاہیے، جو خواتین کو اپنی عزت، آبرو اور پاک دامنی کے تحفظ کا پابند بناتے ہیں (ان آداب میں غیر محرم) مردوں سے اختلاط نہ ہونا، زیب وزینت کو ظاہر نہ کرنا (شامل ہے)اور اگر اجنبی مردوں کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہو تو گفتگو میں ملائم اور لوچ دار لہجہ نہ رکھاجائے(لازم ہے)، (جلد 13 ، ص:13)‘‘۔ (جاری ہے)