• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فتنوں کے زمانے میں دین و ایمان کی اہمیت اور اُس کی حفاظت کے طریقے


مولانا حفظ الرحمٰن دہلوی

اللہ تعالیٰ کی اس کائنات میں اَن گنت نعمتیں ہیں، ان نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ایمان کی نعمت ہے، اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان میری نعمتوں کا شکر ادا کرے، ان کی حفاظت کرے اور ان نعمتوں کے تقاضوں کوصحیح طریقوں سے پورا کرتے ہوئے اس کا اظہار کرے۔

ایمان کا شکر یہ ہے کہ ایک مسلمان اس کی حفاظت کرے اور اسے اپنے ساتھ قبر تک لے جائے، گویا اپنے اور دوسروں کے ا یمان کی حفاظت کرنا یہ اہم ترین فریضہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس حوالے سے قرآن کریم میں ایمان والوں کو حکم دیا ہے: ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو، جیسا ڈرنے کا حق ہے اور بجز اسلام کے اور کسی حالت پر جان مت دینا۔‘‘(سورۂ آل عمران:۱۰۲)

ایمان کا اظہار یہ ہے کہ ایمانی تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کی جائے، ایمانی صفات کے ساتھ زندگی گزارنے پر انسان کی دنیا و آخرت کی زندگی کی‎ فلاح اور کامیابی کا دارومدار ہے اور جو دنیا میں نافرمانی والی زندگی گزارتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی دنیاکی زندگی تنگ کردیتا ہے اور آخرت میں بھی سخت پکڑ کا سامنا ہوگا۔ 

کافروں کے بارے میں آتا ہے کہ کافر جب آخرت میں اللہ کے عذاب میں گھرے ہوں گے اور مسلمانوں کو جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا دیکھ کر بار بار یہ آرزو اور تمنا کریں گے کہ کاش! ہم بھی دنیا میں ایمان لے آتے، بلکہ یہ آرزو تو موت کےوقت سے ہی شروع ہوجائے گی، جب فرشتہ جان نکالنے کے لیے کھڑا ہوگا اور موت کے بعدکے حقائق آنکھوں کے سامنے آجائیں گے، اس وقت یہ آرزو کریں گے کہ کاش! ہم بھی ایمان والوں میں ہوتے اور آج موت کے بعد جس عذاب میں ہم مبتلا ہیں، اس سے محفوظ رہتے۔ 

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کافروں کی اس آرزو کو اس طرح بیان کیا ہے: ترجمہ:’’ کافر لوگ بار بار تمنا کریں گے کہ کیا خوب ہوتا اگر وہ (دنیا میں) مسلمان ہوتے۔ ‘‘(سورۃ الحجر:۲) اس آیت کے فوائد کے ضمن میں علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ نے کافروں کی اس آرزو کے مواقع ذکر کیے ہیں:

1-دنیا و آخرت کا ہر وہ موقع جن میں کافروں کو نامرادی اور مسلمانوں کو کامیابی پیش آئے گی، کفار رو رو کر اپنے مسلمان ہونے کی تمنا اور نعمتِ اسلام سے محروم رہ جانے کی حسرت کریں گے۔ 2-موت کے وقت جب عالم الغیب کا مشاہدہ ہوگا۔ 3-جب بہت سے مسلمان اپنے گناہوں کے سبب دوزخ میں ہوں گے اور ایمان کی وجہ سے رحمتِ خداوندی کی بدولت جہنم سے چھٹکارا حاصل کرکے جنت میں چلے جائیں گے۔

دنیا میں انسان اگر کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ کچھ مال دے کر اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرے، لیکن آخرت میں عذاب سے نجات کے لیے ایمان ضروری ہے، اس کے بغیر نہیں بچاجاسکتا، نہ کسی قسم کی رشوت چلے گی، بلکہ اگر فرض کریں وہاں کسی کے پاس مال ہو اور وہ درخواست کرے کہ میرے سے مال لے کر مجھے چھوڑ دیا جائے، تب بھی جان نہیں چھوٹے گی۔

ویسے تو ہر زمانے میں ایمان کی حفاظت ضروری رہی ہے، لیکن دورِ جدید میں جہاں ہر طرف مادیت کا ایک سیلاب ہے، ہر طرف فتنوں کی یلغار ہے، گویا ہر دن کوئی نہ کوئی فتنہ جنم لے رہا ہے، اس دور میں نیکی کرنا مشکل ہےتو نیکی کی حفاظت اس سے زیادہ مشکل ہے، گویا قربِ قیامت ہے کہ انسان کی دلی کیفیت رات دن کے تغیر کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے، وہ مادی دنیا کی حصول کی خاطر اپنے ایمان کو ختم کررہا ہے، اسے حدیث شریف میں یوں تعبیر کیا ہے: ’’اعمالِ صالحہ میں جلدی کرو، قبل اس کے کہ وہ فتنے ظاہر ہوجائیں جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے (اور ان فتنوں کا اثر یہ ہوگاکہ )آدمی صبح ایمان کی حالت میں اُٹھے گا اور شام کو کافر بن جائے گا، اور شام کو مومن ہوگا تو صبح کفر کی حالت میں اُٹھے گا، نیز اپنے دین کو دنیا کی تھوڑی سی متاع کے عوض بیچ دےگا۔ ‘‘(سنن الترمذی :۴/ ۴۸۷)

گویا آج کے اس پُرفتن دور میں انسان اپنی سب سے قیمتی متاع جس پر آخرت کی کامیابی و فلاح موقوف ہے، دنیا کے چند ٹکوں کی خاطر ضائع کر رہا ہے۔ وہ دنیا جس کی ہرراحت و آسائش اور ہر تکلیف و مشقت کو فنا ہے اور موت کے وقت دنیا کی ہر چیز انسان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے، دنیا کی نعمتوں کی آخرت کی بیش بہا نعمتوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں ہے، اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کیا ہے:’’تم دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو، حالانکہ آخرت (دنیا سے) بدرجہا بہتر اور پائیدار ہے۔ ‘‘(سورۃالاعلیٰ:۱۷، ۱۶)

آج جن فتنوں کا سامنا ہے، ان میں بہت سے تو دین کے نام پر اور اسلامی عنوانات اور شرعی اصطلاحات استعمال کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں، کوئی جدیدیت کے نام پرعقائد کو کھوکھلا اور اعمال کو بےوزن کر رہا ہے، کوئی اکابر و اسلاف سے بیزاری پیدا کر رہا ہے، کوئی قرآنی آیات کی من مانی تشریح کر کے لوگوں کے لیے گمراہی کے اسباب تیار کر رہا ہے، کوئی احادیث کے متفقہ مفاہیم کو بگاڑ کر یہ باور کرا رہا ہے کہ اکابرینِ اُمت نے قرآن و حدیث کی صحیح تفسیر و تشریح نہیں کی اور خود ساختہ مفہوم نکال کر قرآن و حدیث کی تصریحات کی مخالفت کر رہا ہے، کوئی نزولِ مسیح علیہ السلام کا انکارکررہا ہے، کوئی مہدویت کا دعوے دار بن کر اُمت کو گمراہ کررہا ہے، غرض ہر طرف سے فتنہ پرور لوگ مسلمانوں کا ایمان خراب کررہے ہیں اور ایمان کاسودا کرنے پرتلے ہوئے ہیں، یہ اُمت جتنا دورِ نبوی سے دورہورہی ہے، اتنا ہی فتنوں کے قریب ہورہی ہے۔ فتنوں کا ایک سیلاب ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا، ہر ایک کسی نہ کسی شکل میں ان فتنوں کا شکار ہورہا ہے۔

ایک حدیث شریف میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:’’میں دیکھ رہا ہوں کہ (عن قریب) تمہارے گھروں میں فتنے اس طرح برس رہے ہوں گے، جیسے بارش برستی ہے۔‘‘(صحيح البخاری-نسخۃ طوق النجاۃ، ص: ۱۰۲)

فتنہ کسے کہتے ہیں؟:۔ ہر طرح کی آزمائش کو فتنہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، مال ودولت کو بھی فتنہ کہا گیا ہے:’’اور جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد فتنہ ہے۔‘‘ گویا ہر وہ چیز جو انسان کو اپنے رب سے غافل کردے فتنہ ہے، شہیدِ اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒنے فتنہ کی تعریف یہ کی ہے کہ :’’باطل کو حق کی شکل میں کیا جائے، یہاں تک کہ عام آدمی کو حق اور باطل کے درمیان امتیاز کرنا مشکل ہوجائے۔‘‘(تحفۂ قادیانیت جلد: ۶ ، ص:۳۱۰)

فتنے مختلف ہیں، اس میں سے ایک انسان کا اندرونی فتنہ ہے، جس کی وجہ سے دل میں خرابی کا ہونا اور عبادت میں حلاوت کا نہ ہونا، اسی طرح کچھ خارجی فتنے ہیں، مثلاً گھر میں، اولاد میں، معاشرے میں فتنوں کا پیدا ہوجانا۔ فتنوں کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں، جن کا ذکر محدث العصر مولانا محمد یوسف بنوریؒ نے بصائر و عبر میں ایک جگہ کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے:

1-عملی فتنے:۔ عملی فتنے یعنی گناہوں کی مختلف قسموں کا امت میں عام ہوجانا، جیسے :بے حیائی، شراب نوشی، سود خوری وغیرہ، جتنی ان برائیوں میں کثرت ہوگی، اتنا ہی نیکیوں میں کمی واقع ہوگی اور ان برائیوں کےاثرات سارے ہی اعمالِ صالحہ پر پڑیں گے۔

2- علمی فتنے:۔ علمی فتنے جو علوم وفنون کے راستے سے آتے ہیں اور ان کا اثر براہِ راست عقائد پر پڑتا ہے، ان فتنوں کے ذریعہ الحاد و تحریف اور تشکیک کو عام کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک مسلمان اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ ‘‘ہر چیز کی حفاظت کے لیے کچھ تدبیریں ہوتی ہیں، جس کےذریعہ اس چیز کی حفاظت کی جاتی ہے، اسی طرح ایمان کی حفاظت کے لیے کچھ تدبیریں ہیں، جس کے ذریعے ہم اپنے ایمان کو بچاسکتے ہیں:

1-انبیائے کرام علیہم السلام اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت کا مطالعہ :۔ انبیاء علیہم السلام کی دنیا میں بعثت کا مقصد ہی ایمان کی دعوت ہوتا ہے اور جس قدر آزمائش اس ایمان کی وجہ سے اُن پر آتی ہے، کسی اور پر نہیں آتی، اسی لیے انہیں ایمان کی سب سے زیادہ فکر ہوتی ہے، حالانکہ ان کا ایمان پر خاتمہ یقینی ہوتا ہے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ سے ایمان پر خاتمے کی دعا کرتے ہیں، جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا فرمائی، جس کا ذکر سورۂ یوسف میں ہے: ’’اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے! آپ میرے کارساز ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، مجھے پوری فرماں برداری کی حالت میں دنیا سے اُٹھا لیجیے اور مجھے خاص نیک بندوں میں شامل کر لیجیے۔ ‘‘جس چیز کی اہمیت جس قدر زیادہ ہوتی ہے، اس کی تاکید اسی حساب سے کی جاتی ہے۔ 

انبیاء علیہم السلام کو ایمان کی فکر ہر چیز سے زیادہ تھی، اس لیے وہ اپنی اولاد کو بھی اسی کی وصیت کرتے تھے کہ ایمان پر جمے رہنا اور اسی پر مرنا جیسے حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوبؑ نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی تھی:  ’’اور اسی کا حکم کر گئے ہیں ابراہیم ( علیہ السلام ) اپنے بیٹوں کو اور (اسی طرح) یعقوب( علیہ السلام ) بھی، میرے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے اس دین (اسلام) کو تمہارے لیے منتخب فرمایا ہے، سو تم بجز اسلام کے اور کسی حالت پر جان مت دینا۔‘‘(سورۂ بقرہ:۱۳۲)

2-اہلِ حق علماء اور صلحاء کی صحبت اور ان کی مجالس میں شرکت‎:۔ ایمان کی حفاظت اور اعمالِ صالحہ کی پابندی اور اخلاق کی درستگی کے لیے اللہ والوں کی صحبت ضروری ہے، کیونکہ انسان کے اندر یہ خاصیت ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے خیالات و حالات سے بہت جلد متاثر ہوتا ہے اور دوسروں کا اثر قبول کرتا ہے، اسی وجہ سے نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی دینِ اسلام میں بہت تاکید آئی ہے، اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں ایمان والوں کو اس بات کا حکم دیا کہ سچوں کی صحبت ا ختیار کرو: ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ ‘‘(سورۃ التوبہ: ۱۱۹) (جاری ہے)