پانی کا بحران

May 22, 2022

پاکستان میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے جس سے ملک کی معیشت کے علاوہ زرعی شعبہ اور گھریلو صارفین کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں، پانی کے بحران کی بہت سی ٹیکنیکل وجوہات ہیں جن میں حکومت کی ناقص منصوبہ بندی، 'پانی کا ضیاع ،،ڈیموں کا بروقت تعمیر نہ ہونا، 'نہروں اور دریاؤں کے نظام میں بہتری نہ لانا 'بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہ کرنا اور دیگر شامل ہیں۔ موجودہ حکومت عمران خان حکومت کو اس کی ذمہ دار قرار دے رہی ہے، وزیر خزانہ نے اس کی وجوہات بھی بیان کی ہیں، تین دہائیاں قبل سطح زمین سے 35 فٹ گہرائی میں پانی موجود تھا جو اب 600 فٹ تک جا پہنچا ہے۔ 2009 کی ایک رپورٹ کے مطابق 2030 تک ترقی پذیر ممالک میںپانیکی طلب 50 فیصد تک بڑھ جائے گی۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق 2025 تک آدھے سے زائد دنیاپانیکی قلت اور کسی حد تک خشک سالیکاشکار ہوجائے گی، اسکامطلب یہ ہے کہ آدھی سے زیادہ دنیاپانیسے محروم ہو جائےگی۔

اقوام متحدہ کی متعدد ایجنسیوں کے مطابق دنیا شدید موسمیاتی تبدیلیوں کے زیرِاثر ہے اور یہی موسمیاتی تبدیلیاں پانی کے شدید بحران کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ غیر متوقع بارشوں اور بڑھتے درجۂ حرارت کی وجہ سے بھی پانی کا بحران دیکھا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر یہی حالات رہے تو کچھ نیم بنجر اور بنجر علاقوں میں 24 سے 700 ملین افراد کو 2030 تک نقل مکانی کرنی پڑے گی۔ڈبلیو آر آئی کے مطابق پانی کی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ پانی کی جنگ میں اسرائیل، لیبیا، افغانستان، یمن، شام اور عراق شامل ہیں۔ ایکوا ڈکٹ کے ڈیٹا کے مطابق یہ بات بھی منظرِ عام پر آئی ہے کہ معاشی اور سماجی عوامل پانی کے مسائل پیدا کر رہے ہیں مگر بہتر واٹر مینجمنٹ سے ان مسائل کی روک تھام ممکن ہے۔ اس کی بہترین مثال سنگاپور ہے۔ اسرائیل بھی واٹر مینجمنٹ کے لیے بہترین ٹیکنالوجی تیار کر رہا ہے۔

ملک میں پانی کے مسلسل بحران نے بدتر صورت اختیار کر لی ہے، دریاؤں کو پانی کی مجموعیفراہمی میں 97 ہزار کیوبک فٹ فی سیکنڈ (کیوسک) تک کمی آئی، گزشتہ روز دریائوں کے پانی کی مجموعیفراہمی میں 97 ہزار کیوبک فٹ فی سیکنڈ (کیوسک) تک کمی آئی ہے جس سے قومی سطح پر پانی کی قلت 29 فیصد کے مقابلے میں51 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ارسا کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال (30اپریل) یہ تعداد ایک لاکھ 21 ہزار کیوسک تھی، جبکہ اس دن کیلئے 5 سال کی اوسطاً سپلائی ایک لاکھ 57 ہزار 800 کیوسک ہے۔ ہفتہ کے روز 97 ہزار کیوسک بھی جمعہ کے روز فراہم کےجانے والے 11 ہزار کیوسک کے مقابلے میںبہتری کو ظاہر کرتے ہیں۔ حالیہ صورتحال کے مطابق دریائے کابل سب سے زیادہ متاثر ہے، جہاں 10 سال کی اوسط 41200 کیوسک تک تھی جوکم ہو کر 16 ہزار 700 کیوسک پرپہنچ گئی ہے۔ دریائے چناب سے سپلائی اس کی تاریخی اوسط 26 ہزار 300 کیوسک کے مقابلے میں 12ہزار 300 کیوسک ہوگئی ہے جبکہ دریائے جہلم سے 52ہزار 300 کیوسک کی اوسطاً سپلائی کے مقابلے میں موجودہ سپلائی 31 ہزار 500 کیوسک رہ گئی ہے۔ پانی کی قلت سے متاثر انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے پنجاب کو اس کی ایک لاکھ 5 ہزار 500 کیوسک کی طلب کے برعکس صرف 51 ہزار 400 کیوسک پانی فراہم کیا ہے جبکہ سندھ کی 67 ہزار 100 کیوسک طلب کے برعکس 32 ہزار 600 کیوسک پانی فراہم کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں وفاقی اکائیوں کو پانی کی 51 فیصد قلت کا سامنا ہے، ارسا کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں منگلا جھیل میں ایک لاکھ ایکڑ فٹ پانی موجود تھا جب کہ اس کی گنجائش 73 لاکھ ایکڑ فٹ ہے ۔تربیلا جھیل کی بات کی جائے تو یہ 22 فروری کو ڈیڈ لیول پر پہنچ گئی تھی اور گزشتہ 67 دنوں میں بحال نہیں ہوئی۔ ارسا کے اعداد و شمار کے مطابق، سپلائی میں پہلے 29 فیصد کی کمی آئی تھی، ملک کو اپریل کے دوران 86 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملنا چاہئے تھا جب کہ حقیقی طور پر اسے 54 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملا جو 38 فیصد کم ہے۔

سندھ حکومت نے وفاق سے 1991میں کیے جانے والے پانی کے معاہدے کے تحت صوبوں میں پانی کی تقسیم کا مطالبہ کر دیا ہے، سندھ میں فصلیں پانی کی قلت کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہیں اور پھلوں کو نقصان ہو رہا ہے سیلاب میں وافر پانی کو ذخیرہ کرنے کا بندوبست نہیں کیا گیا ڈیموں میں پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اصافہ نہیں کیا گیا، ڈیموں میں بجلی کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافے کے حوالے سے اقدامات نہیں کئے گئے ، بجلی کا بھی شدید بحران پیدا ہو گیا ہے اور سی پیک اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ نے بھی خاطر خواہ منصوبہ بندی نہیں کی۔ نئے ڈیموں کی تعمیر میں تاخیر بھی پانی کے بحران کا سبب بنی ہے۔ پاکستان میں سیلاب میں وافر پانی کو محفوظ کرنے کے لیے بھی کچھ نہیں ہوا۔ پانی کے ضیاع کو روکنا ہو گا 7ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ بند ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے 15000ارب روپے کا خسارہ گیس کی مد میں عمران خان نے چھوڑا ہے۔کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ 2024میں مکمل ہونا ہے،علاوہ ازیں، شہریوںمیں پانی کے بچاؤ کے لیے آگاہی مہم کو بھی شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک طرف پانی میں اضافہ اور دوسری طرف پانی کا بچاؤ ممکن ہو سکے اور نہروں اور دریاؤں میں پانی کے بہاؤمیں بھی اضافہ ہو۔