عمران کا ’’آزادی مارچ ‘‘ کامیاب یا ناکام؟

May 29, 2022

عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے ڈیڑھ ماہ بعد ہی عوام کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دے دی، انہوں نے اسے ’’آزادی مارچ‘‘ قرار دیا جبکہ حکومت نے اسے ’’فتنہ و فساد مارچ‘‘ کا نام دیا۔

عمران خان نے ملتان کے جلسۂ عام میں ’’لانگ مارچ‘‘ کی تاریخ کا اعلان کرنا تھا لیکن ’’گرفتاری‘‘ کے خدشے کے پیش نظر اور طاقت ور حلقوں کے ساتھ رابطے کے باعث لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان پشاور سے کیا جہاں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت ہے، اسی طرح پی ٹی آئی کے بڑے رہنمائوں نے گرفتاریوں سے بچنے کے لیے خیبر پختونخوامیں پناہ لی۔

ویسے تو عمران خان اپنے جلسوں میں عوام سے اپنی ’’آزادی و خود مختاری‘‘ کے تحفظ کے لیے سڑکوں پر نکلنے کا عہد لیتے رہے لیکن انہوں نے پشاور میں پریس کانفرنس میں ’’شارٹ نوٹس‘‘ پر 25مئی 2022کو شاہراہ سرینگر پر پہنچنے کی کال دی، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ عمران خان نے عجلت میں لانگ مارچ کی کال دی۔

عام تاثر تھا کہ حکومتی اتحاد قبل از وقت انتخابات کرانے کے بارے میں کنفیوژن کا شکار ہے، حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ افواہ پھیلائی گئی کہ حکومتی اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی کے سوا بیشتر جماعتیں قبل از وقت انتخابات کرانے کے لیے تیار ہیں۔

حکومتی اتحاد کی طرف سے یہ تاثر دیا گیا کہ وہ عام انتخابات کروا کر اپنی جان چھڑانا چاہتا ہے، حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ عمران خان کو ’’شاہراہ سرینگر‘‘ پر شو آف پاور کرنے کی اجازت دے دی جائے گی لیکن لانگ مارچ کے شرکاء کے 25مئی 2022کو اسلام آباد پہنچنے کیلئے ایک روز قبل وفاقی کابینہ نے پی ٹی آئی کو لانگ مارچ کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ ’’عمران خان کو کسی صورت جلوس کے ہمراہ اسلام آباد داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد رانا ثنااللہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ ’’حکومت لانگ مارچ کے نام پر فتنہ و فساد برپا کرنے کی اجازت نہیں دے گی‘‘۔

2014میں ریڈ زون میں عمران خان کے دھرنا 1کو روکنے کے لیے اس وقت کی حکومت عمران خان کے مارچ کے اسلام آباد تک پہنچنے کی راہ میں حائل نہیں ہوئی، عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے نواز شریف حکومت کو ریڈ زون میں داخل نہ ہونے کی یقین دہانی کرا رکھی تھی لیکن جب لانگ مارچ کے شرکاء اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تو نواز شریف نے پولیس اور ایف سی کو لانگ مارچ کے شرکا کو ریڈ زون میں داخل ہونے سے نہ روکنے کی ہدایت جاری کر دی۔

چوہدری نثار علی خان نے وزیراعظم کی جانب سے لانگ مارچ کے شرکا کو ان کی مشاورت کے بغیر ریڈ زون میں داخل ہونے کی اجازت دینے پر بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا تھا، لانگ مارچ کے شرکا کو ریڈ زون میں داخل ہونے کی اجازت کا نتیجہ یہ نکلا کہ شرکاء نے پارلیمنٹ ہائوس کے ایک حصے اور ایوانِ صدر و وزیراعظم ہائوس جانے والے راستے پر قبضہ کر لیا، وزراء اور اراکینِ پارلیمنٹ کا عقبی راستے سے پارلیمنٹ ہائوس میں آنا ممکن ہوا، پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پی ٹی وی کی عمارت پر قبضہ کرکے اس کی نشریات معطل کر دیں۔

یہ دھرنا 126دن جاری رہا، عمران خان کو اسلام آباد سے خالی ہاتھ ہی واپس جانا پڑا، اس وقت ان کا مطالبہ قومی اسمبلی کے 4حلقے کھلوانا تھا، ان کے مطالبے پر 2013کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف جوڈیشل کمیشن تو قائم ہو گیا لیکن انہوں نے اس کمیشن کی رپورٹ کو تسلیم کیا اور نہ ہی حکومت کے خلاف احتجاج ختم کیا۔

شنید ہے کچھ حلقوں کی جانب سے عمران خان سے رابطہ کرکے ’’لانگ مارچ‘‘ کی تاریخ کچھ دن موخر کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا لیکن عمران خان کی ضد آڑے آ گئی، جوں ہی عمران خان پریس کانفرنس میں ’’آزادی مارچ‘‘ کی تاریخ کا اعلان کرنے لگے۔

شاہ محمود قریشی کو ایک پُر اسرار فون آیا، عمران خان نے انہیں فون بند کرنے کا کہا لیکن یہ فون ایک اہم شخصیت کی طرف سے تھا جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ عمران خان نے فون کرنے والی شخصیت کے نام سے آگاہی کے باوجود شاہ محمود قریشی کو فون بند کرنے کا کہہ دیا۔

کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کا جن اہم شخصیات سے رابطہ ہے، نے انہیں لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان نہ کرنے کا مشورہ دیا لیکن انہوں نے اس مشورے کو قابلِ در خور اعتنا نہ سمجھا اور لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ ’’پچھلے دنوں انہوں نے اتنے جھوٹ سنے، اب کسی پر اعتبار نہیں، مجھے الیکشن کی تاریخ چاہیے، مجھے لانگ مارچ کی تاریخ آگے بڑھانے کے لیے پیغام دیا گیا کہ بس فیصلہ ہو رہا ہے، میں نے مارچ دو تین دن آگے کر دیا‘‘۔ عمران خان ایک سانس میں قبل از وقت انتخابات کی تاریخ کا مطالبہ کرتے ہیں دوسری سانس میں ’’نیوٹرلز اور عدلیہ‘‘ کو بیچ میں کھڑے ہونے کو مجرموں کا ساتھ دینے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے پی ٹی آئی کے ’’لاکھوں‘‘ لوگوں کے اسلام آباد پہنچنے کے خدشے کے پیشِ نظر سخت حفاظتی اقدامات کیے تھے چونکہ چند ہزار لوگ ہی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں جس پر انہوں نے عوام کو پہنچنے والی تکلیف پر معذرت کی۔ پی ٹی آئی نے سیاسی کارکنوں کو اسلام آباد میں احتجاج کی اجازت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تو پی ٹی آئی نے کسی ناخوش گوار واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

اگلے روز سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو جی نائن کے سامنے اسی مقام پر جلسہ کرنے کی اجازت دے دی جہاں 2019میں جمعیت علمائےاسلام نے عمران خان کی حکومت کے خلاف دھرنا دیا تھا جبکہ حکومت نے فاطمہ جناح پارک یا پریڈ گرائونڈ میں پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے کی اجازت دینے کی پیشکش کی جسے پی ٹی آئی نے قبول نہیں کیا، جبکہ عمران خان اس بات پر مصر رہے کہ وہ ہر صورت میں ڈی چوک میں جلسہ کریں گے۔

لانگ مارچ کی صبح پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی، اسد قیصر اور فواد چوہدری نے اسپیکر ہائوس میں اہم حکومتی اراکین سے سیف ایگزٹ مانگا اور کہا کہ عام انتخابات کیلئے بےشک تین چار ماہ بعد کی تاریخ دی جائے لیکن حکومت نے عمران خان کو ’’سیف ایگزٹ‘‘ دینےسےانکار کر دیا۔

پس پردہ نواز شریف کی ہدایات حکومت کو موصول ہو رہی تھیں، حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات ناکام ہوئے۔ عام تاثر یہ ہے کہ عمران خان نے جن ’’توقعات اور خواہشات‘‘ کو پیش نظر رکھ کر لانگ مارچ کی کال دی وہ پوری نہیں ہوئیں۔

سپریم کورٹ کی طرف سے اجازت ملنے پر ان کے اسلام آباد پہنچنے کے راستے میں جزوی طور پر رکاوٹیں دور ہونے پر کارکنوں کی ایک بڑی تعداد ڈی چوک تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی، یہ تعداد لاکھوں میں تو نہیں تھی، 10،15ہزار کارکن 26مئی 2022کی صبح تک قانون نافذ کرنے والے اداروں سے الجھتے رہے۔

پی ٹی آئی کے کارکنوں کے دبائو کے پیش نظر حکومت کو ریڈ زون کی حفاظت کے لیے فوج طلب کرنا پڑی۔ اور اس وقت عمران خان اسمبلیاں تحلیل کرنے کیلئے حکومت کو 6روز کا الٹی میٹم دے کر واپس چلے گئے۔