دورِ عمرانی کے اسیر

June 05, 2022

ایک مذاق سا لگتا ہے کہ سابقہ حکمرا نوں کی ایک بڑی تعداد بمعہ عمران خان گرفتاری سے بچنے کے لیے کے پی منتقل ہوگئی ہے اور ہر روز کبھی سپریم کورٹ اور کبھی اسٹیبلشمنٹ سے اپنے تحفظ کی ضمانت طلب کررہی ہے تاکہ وہ اسلام آباد پر ریاستی تحفظ کے سائے میں چڑھائی کرسکے، ملک کی تباہ حال معیشت کو مزید تباہ کرکے اس کا الزام موجودہ حکومت پر ڈال سکے اور ملک میں خون خرابے کے منصوبے کو عملی جامہ پہناسکے، حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان کی سابقہ حکومت نے اپنے دور میں ایسے ایسے بے ضرر اور بے گناہ لوگوں کو ریاستی طاقت استعمال کرکے گرفتار کرایا اور ان کو جیلوں کے ڈیتھ سیل میں رکھ کر ان پر وہ ظلم ڈھائے جس کا ایک فیصد بھی ان سابقہ حکمرانوں میں برداشت کرنے کی سکت ہے اور نہ حوصلہ۔ یہی وجہ ہے کہ سابق وزیر اعظم سے لیکر وزرا اور مشیران تک اب عوامی و سوشل میڈیا کا دباؤ استعمال کرکے سپریم کورٹ اور اسٹیبلشمنٹ سے اپنے تحفظ کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ آج مجھے سابقہ دور حکومت میں گرفتار ہونے والے وہ بے گناہ لوگ یاد آرہے ہیں جو صرف سابقہ حکومت کے انتقام کی بھینٹ چڑھے لیکن انھوں نے نہ سپریم کورٹ اور نہ اسٹیبلشمنٹ سے تحفظ مانگا اور نہ ہی حکمرانوں کے سامنے سرجھکایا، ان میں سرفہرست میرے ہم نام اور لاکھوں طلبہ و طالبات سمیت ہزاروں صحافیوں کے استاد عرفان صدیقی صاحب ہیں جنہوں نے شاید کبھی مکھی بھی نہ ماری ہو، قانون کے ایسے پابند کہ خالی سڑکوں پر بھی سگنل نہ توڑا ہو اخلاق ایسا کہ بڑوں اور بچوں کے ساتھ ہمیشہ شفقت والا رویہ رکھا،ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ان کے قلم میں تلوار جیسی کاٹ ضرور موجود رہی ہے، ظالموں اور بے ایمانوں کو آئینہ دکھانے کے ماہر رہے ہیں اور ان کی یہی قلمی دیدہ دلیری سابقہ حکمرانوں کو ایک آنکھ نہ بھائی اور انھیں ایسے جرم میں گرفتار کرایا گیا جو انھوں نے کبھی کیا ہی نہ تھا، انھیں ان کے صاحبزادے کے مکان میں رہائش پذیر کرائے داروں کے ساتھ ہونے والا معاہدہ مقامی پولیس میں جمع نہ کرانے پر براہ راست گرفتار کیا گیا، ان کی تذلیل کرنے کے لیے کئی روز تک ان کی ضمانت نہیں ہونے دی گئی، انھیں جیل میں سزائے موت کے قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا، کیا حکمرانوں کو زیب دیتا تھا کہ ایک سینئر صحافی کے ساتھ صرف حق اور سچ لکھنے کی پاداش میں ایسا جبر والا برتائو کیا جاتا ؟ انھوں نے بھی کسی سے رحم کی بھیک نہیں مانگی اور قانون کا سامنا کرکے قانونی طریقے سے رہائی حاصل کی، پھر ن لیگ کے جنرل سیکرٹری اور سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کو بھی ایسے الزام میں گرفتار کرکے مہینوں جیل میں رکھا گیا جو کبھی ثابت نہ ہوسکا، حقیقت تو یہ تھی کہ انھیں سزا دینا مقصود تھا جو عدالت سے تو ممکن نہ تھی لیکن ریاستی طاقت کے ذریعے انھیں گرفتار کرکے قید میں رکھ کر سابق حکمرانوں نے اپنی انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کیا، ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے اپنے علاقے نارووال میں عوام کے لیے کھیلوں کا میدان تعمیر کرواکر اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، لیکن یہاں بھی احسن اقبال نے اپنی رہائی کی کسی سے بھیک نہیں مانگی انھوں نے قانون کا سامنا کیا اور باعزت اور قانونی طریقے سے رہائی حاصل کی، بہرحال وقت کا پہیہ گھوم چکا ہے اور عمران خان کی حکومت کا ساڑھے تین سالہ دور ختم ہوچکا، اب خود عمران خان اور ان کی ٹیم کے ارکان قانون کے شکنجے میں آیا ہی چاہتے ہیں لیکن یہ سب سوشل میڈیا کے ایسے ہیرو ہیں جنھوں نے کبھی سوچا نہ تھا کہ یہ خود بھی قانون کی گرفت کا شکار ہوسکیں گے، دیکھنا ہوگا کہ ہمارے ادارےسابقہ حکمرانوں کے دبائو کا کس طرح مقابلہ کرتے ہیں ؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)