سرمایہ داروں میں گھرے صارفین کے واقعات

June 09, 2022

ہمارا سرمایہ دار بہت چالاک ہے۔ پہلے لوگوں کے دلوں میں خوف، وسوسے اور اندیشے پیدا کرتا ہے پھر اپنی پروڈکٹ لانچ کردیتا ہے اور خوب مال کماتا ہے۔ اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے وہ ابلاغِ عامہ کے سارے میڈیم استعمال کرتا ہے۔ اس کی یہ حکمتِ عملی اتنی کامیاب ہے کہ وہ اس کائنات کی سب سے ارزاں اور فراوانی سے ملنے والی چیز پانی کوبھی بیچنے لگا ہے۔ آج سے تیس چالیس برس پہلے ہم ہینڈ پمپوں سے نکلنے والا پانی پیا کرتے تھے اور اسی اسی، نوے نوے برس جیا کرتے تھے۔ آج ہم پانی خرید کر پیتے ہیں، اس کے باوجود ہماری اوسط عمر مسلسل کم ہو رہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے سکیورٹی کا اتنا غلغلہ نہیں تھا۔ پھر سرمایہ دار ملکوں کی طرف سے سکیورٹی کا شور مچایا گیا۔ کروڑوں اربوں روپے کے سکیورٹی آلات بیچے گئے۔ اب یہ سکیورٹی آلات دنیا بھر کے سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کی مسلسل ضرورت بن چکے ہیں۔ کورونا کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ پہلے اس کا خوف ہمارے دلوں میں بٹھایا گیا پھر اس سے بچائو کے نام پر اربوں روپے کمائے گئے اور ابھی تک کمائے جا رہے ہیں۔ ذرا نچلی سطح پر آکر دیکھیں تو ہمارے ہاں ہر سال موٹر بائیک چلانے والوں کیلئے ایک خصوصی مہم چلائی جاتی ہے جس کے ذریعے سے انہیں ہیلمٹ کے استعمال کی ترغیب دی جاتی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہیلمٹ کا استعمال ہیوی بائیکس چلانے والوں کیلئے ضروری ہوتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ہائی ویز پر موٹر بائیک چلانےوالوں کے لئے ہیلمٹ زیادہ مفید ہوتا ہے کیونکہ وہاں حادثات کازیادہ امکان ہوتا ہے۔ ہمارے شہروں میں ٹریفک کا دبائو بہت زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے گاڑیاں دوڑنے کی بجائے رینگتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہمارے ہاں زیادہ ترلوگ ستر سی سی موٹر بائیکس چلاتے ہیں۔ اسلئے یہاں ہیلمٹ کی ضرورت کم ہی پڑتی ہے لیکن اس کے باوجود یہاں ہیلمٹ نہ پہننے والوں کو بھاری جرمانے کئے جاتے ہیں۔ اس مہم سے ان سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کی سیدھی کوشش کی جاتی ہے جوبیرون ملک سے ہیلمٹ درآمد کرتے ہیں۔

ہمارا نیا نظام عالم پیدا کررہا ہے نہ سائنس دان، ادیب پیدا کررہا ہے نہ قاری، بلکہ یہ صارفین کی کھیپ تیار کر رہا ہے۔ہمارا سرمایہ دار ہمیں کس طرح بے وقوف بناتا ہے؟ اس کی وضاحت میں ان واقعات سے کروں گا جو معمول کی زندگی میں آپ سب کے ساتھ پیش آتے ہوں گے لیکن شاید آپ نے کبھی غور نہ کیا ہو۔ چند روز قبل میں ایک گائوں سے خالص کھوئے کی برفی لایا۔ وہ اتنی لذیز تھی کہ میں نے اس میں سے آدھی اپنے ایک خاص دوست کو دینے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس کے لئے لاہور کی مشہور بیکری سے مٹھائی کا خالی ڈبا خرید لیا جائے۔ میرا خیال تھا کہ دس بیس روپے کا مل ہی جائے گا لیکن بیکری کے کائونٹر پر کھڑے سیلز مین نے کہا کہ یہ ڈبا آپ کوتول کر دوں گا۔ تولنے کے بعد سیلز مین نے بتایا کہ یہ ڈباایک سو بیس روپے کا ہے۔ سیلز مین نے یہ ڈبا مجھے مٹھائی کے ریٹ پر دیا تھا۔ گویا بیکری کا مالک تیس چالیس روپے کلو والی ٹین کی چادر سات سو روپے فی کلو فروخت کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ مٹھائی سے زیادہ منافع اسے ان ڈبوں ہی سے حاصل ہو جاتا ہو۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی مجھے یاد آ رہا ہے۔ مرغی کا گوشت لینے گیا تو میں نے اپنی پسند کی دو مرغیاں ذبح کروائیں۔ ان دنوں میں نے گھر میں دو بلیاں رکھی ہوئی تھیں۔ میں نے قصاب سے کہا کہ دونوں مرغیوں کی تمام آلائشیں اور چربی الگ سے ایک شاپنگ بیگ میں ڈال کر مجھے دے دے۔ اس نے کہا :’’بات ہی کوئی نہیں جناب! یہ لیجیے میں اس میں اپنے پاس پہلے سے موجود آلائشیں اور چربی بھی ڈال دیتا ہوں‘‘۔ میں نے سختی سے کہا کہ ’’نہیں مجھے صرف اپنی دو مرغیوں کی آلائشیں اور چربی درکار ہے‘‘۔ دونوں مرغیاں ذبح کرنے کے بعد اس نے مجھے بتایا تھا کہ گوشت کے گیارہ سو روپے بنے ہیں۔ جب اس نے گوشت کی بوٹیاں تیار کرلیں اور آلائشوں سمیت میرے حوالے کیا تو یک دم بولا :’’ صاحب جی! ذرا یہ دونوں پیکٹ مجھے دیجیے۔ اس نے دونوں پیکٹ الیکٹرانک ترازو میں رکھ کر تولے اور بولا :’’آپ کے گیارہ سو روپے نہیں بلکہ ساڑھے آٹھ سو روپے بنے ہیں‘‘۔ میں حیران رہ گیا کہ اتنا ایمان دار قصاب لیکن ذہن پر ذرا سا زور دیا تو کھلا کہ قصاب مجھ سے زیادہ ذہین تھا۔ پہلے اس نے گوشت کم تولا تھا جب اس نے دیکھا کہ میں صرف اپنی دو مرغیوں کی آلائشیں اور چربی مانگ رہا ہوں۔ گوشت اور آلائشوں والا پیکٹ گھر جا کر تولوں گا تو یہ کم نکلے گا۔ اسلئے اس نے پکڑے جانے کے خوف سے سچ اگل دیا۔ اگر تمام صارف مرغی کا گوشت بیچنے والوں سے اپنی خریدی ہوئی مرغی کی آلائشیں اور چربی ساتھ ہی لے لیا کریں تو انہیں گوشت ہمیشہ پورا ملے گا۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ قصاب مرغی کی آلائشیں اور چربی جعلی کوکنگ آئل بنانے والوں کو فروخت نہیں کریں گے۔ قصاب آلائشوں اور چربی کی قیمت پہلے آپ سے وصول کرتے ہیں پھر کوکنگ آئل بنانے والوں سے۔ یوں وہ دہرے فائدے میں رہتے ہیں۔ سرمایہ دار کی طرح اگر صارف بھی ذہین ہو تو وہ کئی مقامات پر لٹنے سے بچ سکتا ہے۔ ایک بار میں اپنے بچوں کے ساتھ ایک پارک میں بیٹھا تھا۔ بچوں کوپیاس لگی تو انہوں نے انٹرنیشنل برانڈ کی بوتلیں منگوا لیں۔ میرے چھوٹے بیٹے نے شور مچادیا کہ بوتلیں جعلی ہیں۔ میں نے پوچھا :’’تمہیں کیسے پتا چلا؟‘‘ بولا: ’’بابا! ایک بار آپ کے دوست محسن بھٹی صاحب بتا رہے تھے کہ اگر بوتلوں میں مشروب کی سطح یکساں ہو تو بوتل اصلی ہوگی اگر کسی بوتل میں کم اور کسی میں زیادہ ہو تو سمجھ لیں کہ بوتل جعلی ہے‘‘۔ دکاندار ذہین تھا۔ اس سے پہلے کہ شور مچتا وہ کھلی ہوئی بوتلیں چپ چاپ اٹھا کر لے گیا۔