آئندہ پانچ سے دس سال کی سمت کا تعین

June 30, 2022

اب کیا ہوگا۔؟اس بحران سے کیسے نکلیں گے۔ کیا نکل بھی سکیں گے۔؟

75سال میں بارہا ایسے موڑ آئے ہیں ۔ جب یہ سوال ہم نے اٹھائے یا ہم سے کیے گئے۔ لیکن کوئی نہ کوئی متبادل قیادت سامنے ہوتی تھی یا پھر لوگ لو کی دعا مانگتے تھے۔ اور باد صر صر چلنے بھی لگ جاتی تھی۔ ’میرے عزیز ہم وطنو‘ کی آواز سنائی دیتی تھی۔ یقین ہوتا تھا کہ اب کچھ استحکام آجائے گا۔ اب کے سوشل میڈیا نے یہ امید بھی چھین لی ہے۔ نہ نظر آنے والی حکومت بھی دکھائی دینے لگی ہے۔ وہاں بھی ایک بے بسی ہے۔

میں وقتی تبدیلی کی بات نہیں کررہا ہوں۔ اس وقت جو بحران ہے وہ عمودی بھی ہے افقی بھی۔ نسلی اور لسانی بھی۔ آئینی بھی علاقائی بھی۔ انتظامی بھی اخلاقی بھی۔ آزاد الیکٹرانک میڈیا پر آفریں کہ پابندیوں کے باوجود وہ حقائق ہمارے سامنے بکھیر رہا ہے۔ اس سے زیادہ شاباش سوشل میڈیا کوکہ وہ تو کچھ چھپا ہی نہیں رہا۔ کرپشن زوروں پر ہے۔ ایک بلدیاتی دفتر سے لے کر وفاقی وزارت تک۔ دائیں بازو کے پاس بھی کوئی حل نہیں ہے۔ بایاں بازو تو ویسے ہی شل نظر آرہا ہے۔ قوم پرست ہیں۔ لیکن اپنے اپنے علاقے کے وسائل اور مسائل پر ان کا عبور نہیں ہے۔ کوئی واضح اقتصادی لائحہ عمل نہیں ہے۔ مذہبی جماعتیں بھی کوئی ایسا اجتماعی نظام تشکیل نہیں دے رہیں جو دین اور دنیا دونوں کے لیے کارآمد ہو۔ عالمی مالیاتی اداروں کا شکنجہ کسا جارہا ہے۔

میں پھر بھی پُر امید ہوں۔ مجھے اپنے 22کروڑ کی دانش پر بھروسہ ہے۔ خاص طور پر غربت کی لکیر سے نیچے چھ کروڑ پر کیونکہ وہ ناداری میں بھی متحرک ہیں۔ حلال رزق کمانے کی جدو جہد کررہے ہیں۔ مجھے اپنے وطن کے محل وقوع پر فخر ہے۔ ہمارے پڑوس میں چین اپنے خواب کی تعبیریں حاصل کررہا ہے، اس نے سوشلزم کا راستہ نہیں چھوڑا۔ اسے اپنی خصوصیتوں کے ساتھ اپنائے رکھا۔ پاکستانی بالخصوص غریب پاکستانی بھی خواب دیکھتے ہیں۔ ایک خود دار،خودمختار اورخوشحال پاکستان کا خواب۔ یہی ہمارے آگے بڑھنے میں سب سے طاقتور وسیلہ ہے۔

اس خواب کی تعبیر ہمارے لیڈر تو نہیں دے سکے کیونکہ یہ ان کا خواب ہی نہیں ہے۔ وہ تو اپنے بنگلوں، زمینوں، بیرونِ ملک املاک میں وسعت کا خواب دیکھتے ہیں۔ اسی کی تعبیر کے لیے کوششیں کرتے ہیں۔ اپریل میں آنے والے حکمرانوں کو دیکھ لیں اپنے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کیلئے تیزی سے پارلیمنٹ کو استعمال کیا ہے۔ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ لوگ جاگ رہے ہیں۔ مڈل کلاس متحر ک ہورہی ہے۔ اقتصادی حالات ایسے ہیں کہ چین سے گھر نہیں بیٹھا جاسکتا۔ پاکستان کی آبادی بڑھ رہی ہے جس سے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ وسائل پر جاگیرداروں، سرداروں،سرمایہ داروں، نو دولتیوں ، ٹھیکیداروں کا قبضہ ہے۔ نوواردان Starts Up بڑی تعداد میں افق پر چھارہے ہیں۔ ڈیجیٹل انقلاب آرہا ہے۔ رجعت پسند قوتیں نوواردوں کو وسائل تک پہنچنے نہیں دے رہی۔ اسٹیبلشمنٹ بھی نوواردوں کو ترانوں اورملّی نغموں سے مسحور رکھنا چاہتی ہے۔2025میں آبادی 24کروڑ اور 2030میں 26کروڑ ہوجائیگی۔ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ، مقامی اسٹیبلشمنٹ اور جمہوریت کے ٹھیکیداروں کی کوشش اور خواہش یہی ہے کہ پاکستانی قومیتیں اسی طرح متصادم رہیں۔ اس میں سوشل میڈیا کو بھی بے تحاشہ استعمال کیا جاتا ہے۔ فرقہ واریت کے تنازعات میں الجھایا جاتا ہے۔ قوم پرستوں کو آپس میں لڑوایا جاتا ہے۔ امریکہ یورپ انڈیا اسرائیل کی خواہش بھی یہی ہے کہ پاکستان دلدل میں دھنستا رہے۔ لیکن دلدل سے پوری طرح باہر نہیں نکالیں گے۔ البتہ کچھ نہ کچھ مددکرتے رہیں گے۔

قومیں ایسے نازک ادوار سے گزری ہیں۔ ہمیں ذیلی قوم پرستیوں سے خائف نہیں ہونا چاہئے۔ اپنے اپنے علاقے، اپنی قومیت سے اگر انسان شدت سے محبت نہیں کریں گے تو اپنے ملک سے عشق کیسے ہوگا؟ یہ ہمارے تحقیقی اداروں، دانشوروں اور درسگاہوں کی ذمہ داری ہے کہ اس علاقائی قوم پرستی پر وفاقی قوم پرستی کے اہرام تعمیر کریں۔ ذیلی قوم پرستی منزل نہیں ہے۔ راستہ ہے اجتماعی قوم پرستی کی منزل کا۔

اجتماعی قوم پرستی کی منزل ہی خوددار، خود مختار اورخوشحال پاکستان کی منزل ہے۔ یہ تحقیق، توثیق اور تصدیق سے حاصل ہوسکتی ہے۔ علاقائی قوم پرستوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے۔ جذبہ ہے، جوش ہے، شکایتیں ہیں لیکن کسی منزل کا تصور نہیں ہے۔ اپنے علاقے کے وسائل کا ادراک نہیں ہے۔ ان پر قبضہ کس کا ہے اور کیسے چھڑواناہے۔ اس سلسلے میں ذہن صاف نہیں ہیں۔ وہ بیدارہونے لگتے ہیں تو انہیں حکمرانوں کی ساحری پھرسلادیتی ہے۔ دوسرے علاقے کی قوم پرستی سے ڈرادیا جاتا ہے۔ مختلف علاقوں میں وسائل پر قابض ان اجارہ داروں کے آپس میں رشتے ہیں، تعلقات ہیں، خفیہ منصوبہ بندیاں ہیں، یہ وفاق کی سطح پر ایک ہیں لیکن مختلف علاقے کے لوگوں کو ایک نہیں ہونے دیتے۔ اس کیلئے آئین کا استعمال بھی ہوتا ہے۔ طاقت کا بھی۔ عدالت کا بھی۔ سیکورٹی کا بھی۔

اس وقت ماہرین، ٹیکنو کریٹوں، تحقیقی اداروں، این جی اوز، دینی مدارس، یونیورسٹیوں میں ذہنی انقلاب کی فصل بوئی جارہی ہے۔ ڈیجیٹل آلات اس میں سہولت کاری کررہے ہیں۔ ضرورت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر امڈتی ان ندیوں کو ایک دریا کی شکل دی جائے۔ دردمند پروفیسرز، آتی نسلوں کے متفکر اساتذہ، علمائے کرام، ریٹائرڈ سول و فوجی آفیسرز لائحہ عمل مرتب کریں۔ خیال رہے کہ سوشل میڈیا بہت نتیجہ خیز قوت ہے۔ اور یہ ہماری 60 فی صد نوجوان آبادی کے ہاتھوں میں ہے۔ اسی ہتھیار سے ہم اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ گزشتہ 40سال میں سیاسی حکومتیں بھی ملک کو سیدھے راستے پر نہیں ڈال سکیں اور نہ ہی فوجی حکومتیں ایک واضح راستہ اختیار کرپائیں۔اس لیے زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اہل دانش وصاحبانِ ادراک آئندہ پانچ دس برس کیلئے اپنے بے کراں وسائل پر انحصارکرتے ہوئے تاریخ کے ادوار میں مثالیں تلاش کرتے ہوئے، پاکستان کے لسانی نسلی وعلاقائی مزاج کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیڈریشن یا کنفیڈریشن کا تصور دیں۔ صوبوں کو کافی خودمختاری مل چکی ہے۔ مزید بھی دی جاسکتی ہے۔ لیکن ایک خواب، ایک ہدف کا تعین کیا جائے۔ سیاسی جماعتوں کو اس کا پابند کیا جائے ۔ یہ ملک ہمارا ہے۔ یہاں ہم عوام اکثریت میں ہیں۔ خود داری، خود مختاری، خود کفالت اورخوشحالی کے جو خواب کوئٹہ، کراچی، لاہور، ملتان، پشاور، گلگت اور مظفر آباد میں دیکھے جاتے ہیں۔ ان کی تعبیر کا حصول ہی سیاسی اور غیر سیاسی اداروں کا فرض ہونا چاہئے۔ خیال رہے کہ خالی بیانات ملک کو زخمی کرتے ہیں۔ جبکہ عملی کوششیں اسے خوشحال کرتی ہیں۔