ظفر محمود اور انڈراسٹینڈنگ چائنا

July 03, 2022

چین کے جنوبی شہر گوانگ ژو میں انڈراسٹینڈنگ چائنا انٹر نیشنل کانفرنس کے انعقاد سے بہت پہلے پاکستان میں ’’انڈراسٹینڈنگ چائنا‘‘ کے نام سے ایک ادارہ کام کررہا ہے ،جوپاک چین دوستی کے فروغ ، اس کے استحکام اور غلط فہمیوں کے تدارک پر کام کررہاہے ۔اس کے سربراہ ڈاکٹر ظفر الدین محمود ہیں جو کسی زمانےمیں سی پیک کے حوالے سے پاکستان کے اسپیشل انوائے تھے۔انہوں نے اپنی عمر کاایک طویل حصہ پاک چین دوستی کے فروغ میں صرف کیا ہے ۔کافی عرصہ چین میں مقیم بھی رہے ہیں ۔چینی حکومت کئی مرتبہ ان کی خدمات کا اعتراف کر چکی ہے ۔مجھے گزشتہ روز انڈرا سٹینڈنگ چائنا کے ایک مذاکرے میں شرکت کا موقع ملا ۔جس میں خالد عباس ڈار ، شعیب بن عزیز ،جاوید اقبال کارٹونسٹ ،سابق وزیر اطلاعات احمد وقاص ریاض ، زاہد چوہدری ،مصطفی کمال پاشا ، آصف عفان،،آمنہ منور قریشی ، محمد سفیان ،ہارون عباسی ، نعیم ثاقب کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ شامل تھے ۔ موضوع تھا، ’’سوشل میڈیاکے رجحانات ۔ ایک لمحہِ فکریہ ‘‘۔اس موضوع کو دیکھ کرسوچا کہ شاید اس ادارے نے اپنا دائرہ کار وسیع کرلیا ہے مگر پھر بھی بات چلتے چلتے پاک چین دوستی پر پہنچ گئی کہ سوشل میڈیا پراس حوالے سے غلطہ فہمیوں کا تدارک کیسے کیا جائے ؟سوال و جواب کا ایک طویل سلسلہ جاری رہا اورآخر کار بات چین میں مسلمانوں کے حالات پر پہنچ گئی ۔ چین میں مسلمان صحابہ کرامؓ کے دور سے موجود ہیں ۔اس وقت وہاں مسلمانوں کی تعداد دس کروڑ کے قریب ہے۔

ظفرالدین محمود نے کہا ،’’چین میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کی تفصیل جوہمیں سننے کو ملتی ہے وہ غلط ہے، چین کے ہر مسلم اکثریتی صوبے کا گورنر مسلمان ہے اور وہاں مسلمانوں کو اپنے مذہب پرعمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔یہ جو غلط اطلاعات ہمیں مغربی ذرائع ابلاغ فراہم کرتا ہے،اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ مغربی میڈیا دنیا بھر میں صرف چین میں مسلمانوں کا حامی ہے جسےعراق ، فلسطین اور کشمیر کے مسلمان نہیں دکھائی دیتے ۔ سچ یہی ہے کہ یہ چین کے خلاف مغرب کے پروپیگنڈا کے سوا کچھ نہیں ۔میں نے ابو ظہبی کے ایک وفد کے ساتھ چین کے تمام مسلم علاقوں کا دورہ کیا ۔ وہاں ہر گائوں میں ہر محلے میں مساجد موجود ہیں جہاں پانچ وقت نماز ہوتی ہے ۔مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں ۔وہاں پر چینی زبان میں ترجمہ شدہ قران حکیم ہر جگہ ملتاہے ۔یہ ضرور ہے کہ مذہبی تشدد آمیز تبلیغ کی اجازت نہیں اور اس کی اجازت تو خود اسلام بھی نہیں دیتا ۔دنیا میں اسلام مسلمانوں کےکردار سے ،ان کی اعلیٰ صفات سے پھیلا ہے تلوار سے نہیں ۔ وہاں کا قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ کسی اجنبی کے دروازے پر دستک دیں اور جب وہ باہر آئے تو آپ اسے مسلمان کرنے کی کوشش کریں ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چین میں پھیلتے ہوئے مذاہب میں اس وقت اسلام اور مسیحیت سر فہرست ہیں ۔انہوں نے تمام شرکا کو کاشغر کے دورے کی دعوت بھی دی ۔

ڈاکٹر ظفر الدین محمود اس سے پہلے بھی مختلف اہم شخصیات کے گروپس کو چین کےدورے کراچکے ہیں ۔ میں اہل قلم کے ایک گروپ کے ساتھ ایک مرتبہ دس دن کےلئے ان کے ساتھ چین گیا تھا ۔یقین کیجئے اس دورے کے بعد چین کو دیکھنے ، سمجھنے اورپرکھنے کا میراانداز بدل گیاہے ۔ اس سے پہلے میں چین کو صرف ایک کمیونسٹ ملک کی حیثیت سے دیکھتا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ یہ ملک اس اشتراکی نظام کی باقیات کو سنبھالے ہوئے ہیں جو دنیا میں ناکام ہوچکا ہے مگر وہاں جا کر مجھے معلوم ہوا کہ نہیں ایسا نہیں ہے ۔چین نےاس نظام کی تمام خرابیاں چن چن کردرست کردی ہیں ۔یعنی ایک نیا نظام بنایا ہے جولوگوں کو کام کرنے کاجذبہ فراہم کرتا ہے ۔اشتراکیت میں اسی چیز کی کمی تھی ۔اس نظام کی ناکامی میں اس بات نے بہت کردار ادا کیا ہے۔ میں نے چین کی ترقی کو بھی بغور دیکھا ،اس وقت وہ یورپ سے کہیں آگے ہے ۔ ایک بات یاد آرہی ہے کہ ہم نے جن علاقوں کا دورہ کیا تھا وہ چین کے مسلم اکثریتی آبادی کے علاقے نہیں تھے ،اس کے باوجود بھی وہاں کتابوں کی دکانوں پر فروخت ہونے کےلئے چینی زبان میں ترجمہ شدہ قرآن حکیم موجود تھا ۔یعنی چین نے اشتراکی نظام میں جو تبدیلیاں کی ہیں ،اس میں مذہب کی مخالفت کو بھی ختم کیا ہے ۔وہاں مذہب ہر آدمی کا انفرادی حق ہے وہ جس مذہب پر چاہے عمل پیرا ہو چینی حکومت اس کےراستےمیں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتی جب تک وہ ملک میں تفرقے کا باعث نہیں بنتا ۔

واپس آتے ہیں مذاکرے کی طرف ۔تقریباً تمام شرکا اس بات پر متفق تھے کہ آزادی ِ اظہار پر کوئی پابندی لگائے بغیر سوشل میڈیا کے جن کو بوتل میں بند کرنا انتہائی ضروری ہے وگرنہ ملک میں پھیلتی ہوئی مذہبی ، سیاسی اور سماجی تفرقہ بازی کو روکا نہیں جاسکتا جو انارکی کی طرف جارہی ہے اورکسی وقت بھی انتہائی خطرناک نتائج پر منتج ہوسکتی ہے ۔اس سلسلے میں کسی نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں ۔ضرورت صرف اتنی ہے کہ موجودہ قوانین کو پوری بے رحمی کے ساتھ نافذ کیا جائے تاکہ تعصب کافروغ ختم ہو۔جھوٹ جو سوشل میڈیا کی وساطت سے ایک عفریت کی شکل دھار چکا ہے ، اس کا مکمل خاتمہ تو ممکن نہیں مگر اس کی شرح کم ہو سکتی ہے۔شعیب بن عزیز نےاس سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ میں پچھلے کئی برسوں سے ایک پوسٹ مسلسل پھیلتی ہوئی دیکھتا آرہا ہوں کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں مچھلی کی ایک پلیٹ بارہ روپے ، سالن کی پلیٹ دو روپے، ایک روپے کا چائے کا کپ وغیرہ وغیرہ ملتا ہے ،جو صریحاً جھوٹ ہے اوراس کی کئی بار تردید بھی آچکی ہے مگر جھوٹی پوسٹ مسلسل پھیل رہی ہے ۔اس عمل کا تدارک کیسے ہوگا ؟انہوں نے کہاکہ آزادیٔ اظہار کوہمارے یہاں پارٹ آف سلوشن بننے کی بجائے پارٹ آف پرابلم بنایا جارہا ہے ۔اس پر بہت بحث ہوئی کہ سوشل میڈیا پرجو کچھ ہورہا ہے، اسے کیسے کنٹرول کیا جائے ۔ باقی دنیا نے سوشل میڈیا کو کیسے جھوٹ اور دوسروں کی کردار کشی سے محفوظ کیا ہے ؟ اس حوالے سے بہرحال یہ ایک اہم مذاکرہ تھا کہ حکومت اگراس کی تجاویزپر عمل کرے تو بہتری کی صورت نکل سکتی ہے۔