بجلی کے بند پلانٹس اور لوڈشیڈنگ

July 05, 2022

ملکی معیشت جن بحرانوں سے دوچار ہےحکومت ان پر قابو پانے کیلئے ہر طرح کے اقدامات کر رہی ہے ۔جس سے اس کے دیوالیہ ہونے کے خطرات تو ٹل گئے ہیں لیکن ان مسائل کے پیچھے جو سیاسی بحران کارفرما ہےوہ جوں کا توں ہے۔بجلی کے دو درجن پاور پلانٹس سے کام نہیں لیا جا رہا ۔ملک کے تمام شہری اور دیہی علاقوں میں ایک طرف 6سے 14گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے جس سے عوام ناقابل برداشت گرمی کا عذاب سہہ رہے ہیں تو دوسری طرف مہنگی گیس فرنس آئل اور درآمدی کوئلے کی قلت کے علاوہ انتظامی نااہلی اور مختلف تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے کم و بیش تیس پاور پلانٹس بند پڑے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اتوار کو توانائی کے بحران پر ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں حکم دیا ہے کہ لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کیلئے بند پاور پلانٹس کھولنے کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ انہوں نے لوڈشیڈنگ اور بجلی کی پیداوار میں اس ہوش ربا کمی کی وجوہات کے بارے میں متعلقہ حکام سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ اس وقت ملک میں بجلی کی طلب 29 ہزار میگا واٹ بتائی جاتی ہے جبکہ رسد 21213ہے اس طرح پاکستان بجلی کے 7787میگاواٹ شارٹ فال سے دوچار ہے۔ حکومت کے بقول پچھلی حکومت اگر بروقت اقدامات کرتی اور پاور پلانٹس بند نہ ہوتے تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ شارٹ فال اس وجہ سے بھی پیدا ہوا کہ چین کی مدد سے تکمیل پانے والے کروٹ ہائیڈل پروجیکٹ، شنگھائی تھری اور پنجاب تھرمل آر ایل این جی پاور پلانٹ منصوبوں کی تکمیل میں غیر ضروری تاخیر ہوئی۔ صرف ان تین منصوبوں کے مکمل ہونے سے 3ہزار 200میگا واٹ بجلی ملتی جس سے کم سے کم شہری علاقوں میں لوڈشیڈنگ سے بچا جا سکتا تھا۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت لاہور میں ہونے والے اجلاس میں بجلی کا بحران حل کرنے کیلئے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ میاں شہباز شریف نے بتایا کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنا میری حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ لوڈشیڈنگ کی میں خودمانیٹرنگ کر رہا ہوں۔ حکومت نے اب تک جو مشکل فیصلے کئے ہیں ان کے نتیجے میں ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل گیا ہے ۔ انہوں نے ہدایت کی کہ صوبوں کو پینے کے پانی اور زرعی سہولتیں فراہم کرنے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر کام کیا جائے۔ اس سلسلے میں ارسا صوبوں کے ساتھ باہمی مشاورت اور آزادی کے ساتھ فیصلے کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم مشکل وقت سے نکل آئے ہیں۔قوم پریشان نہ ہو ، عوام کا حوصلہ بڑھانے کیلئے یہ بیانیہ امید افزا ہے لیکن زمینی صورتحال کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔ حکومت کے سخت اور مشکل فیصلوں کے نتیجے میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ ٹیکسوں کی بھرمار چھوٹے طبقے کی نیندیں بھی حرام کئے ہوئے ہے اور یوٹیلیٹی بلز عوام کی استطاعت سے باہر ہو رہے ہیں۔ عام صارفین اور تاجر برادری سراپا احتجاج ہے۔حکومت نے تو تنخواہیں بڑھا کر سرکاری ملازمین کی اشک شوئی کر دی ہے مگر نجی شعبے کے ملازموں کی تنخواہیں وہی ہیں جو کافی پہلے مقرر ہوئی تھیں ۔ بے شک سری لنکا کے حشر سے سبق سیکھتے ہوئے حکومتی اقدامات درست دکھائی دیتے ہیں مگر غریب طبقہ گرانی کے اس سیلاب سے کیسے بچے اس پہلو پر بھی خاطر غواہ غور ہونا چاہئے۔ چھوٹے موٹے ریلیف دے کر مہنگائی کا بوجھ دینے سے ان کی پریشانیوں کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ ایک بڑا مسئلہ ہے مگر اس سے بھی بڑا مسئلہ اس کے بھاری بھر کم بل ہیں۔ تین سو یونٹ تک قیمت میں جو ریلیف دی گئیں وہ کتنے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ اس حد میں اضافہ ہونا چاہئے اور آئے روز بجلی گیس اور پٹرول کے نرخوں میں بے محابا اضافے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہئے۔ صد شکر کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔ غریب آدمی کو بھی دیوالیہ ہونے سے بچایا جائے۔