نظامِ انہضام اور ڈیزائنر

July 06, 2022

عیدِ قرباں کے اگلے دن ہر طرف آپ کو آنتیں بکھری نظر آئیں گی ۔ درحقیقت پورا نظامِ انہضام۔ انسان میں چونکہ اللہ نے عقل اور نفاست پیدا کی ہے ؛لہٰذا اکثر انسان اس طرح کی چیز کو کھا نہیں سکتے ۔یوں بھی وہ تو ہر چیز کو آگ پہ پکا کے کھاتا ہے ۔ جانور تو مٹی پہ پڑی ہوئی آنتیں شوق سے کھا جاتے ہیں ، جو بول و براز سے بھری ہوں۔ ایک جانور کواگر ذبح کیا جائے اور اس کا سینہ اور پیٹ چاک کر کے یہ نظامِ انہضام باہر نکال پھینکا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ خوراک کی نالی سے شروع ہونے والا یہ سسٹم جسم میں سب سے زیادہ وزنی ہے۔موجودہ دورمیں جب پریشانی حد سے بڑھ چکی ہے تو بے شمار لوگ نظامِ انہضام کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں ۔ ماہرینِ انہضام کے پاس جانے والوں میں شاید 90فیصد سے بھی زیادہ لوگ صرف پریشانی کا شکار ہوتے ہیں ۔

جب انسان اس نظامِ انہضام پر غور کرتا ہے تو معلوم ہوتاہے کہ یہ پورا سسٹم جو کہ گلے میں خوراک کی نالی سے شروع ہوتاہے‘ ایک مکمل ڈیزائن کے تحت بنا ہے۔ویسے تو یہ نظام گلے میں خوراک کی نالی سے شروع ہوتاہےلیکن ایک طرح سے منہ میں دانت اور لعاب کی رطوبت بھی اس کا حصہ ہیں۔ سامنے والے دانت چہرے کو ایک خوبصورت ساخت حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں ۔ ان کے نہ ہونے سے منہ پوپلا ہو جاتاہے۔ پیچھے والے چوڑے دانت خصوصی طور پر خوراک کو پیسنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں ۔ کبھی آپ آگے والے دانتوں سے چبانے کی کوشش کر کے دیکھیے۔

اسی طرح یہ جو منہ میں لعاب کا نہ ختم ہونے والا ذخیرہ رکھ دیا گیاہے‘ اس کی غیر موجودگی میں لقمہ چبانا اور اسے نگلنا کسی سزا سے کم نہ ہوتا۔ کچھ لوگوں کا بیماری کی وجہ سے گلا خشک ہوتاہے تو انہیں اس لعاب کی اہمیت کا احساس ہوتاہے۔ خوراک میں رغبت پیدا کرنے کیلئے انسانی زبان پر ذائقے کا احساس رکھا گیا ہے ۔منہ کا ذائقہ بگڑنے پر انسان کچھ بھی کھانے کے قابل نہیں رہتا۔ لقمہ چبا کر آدمی اسے خوراک کی نالی میں دھکیل دیتاہے۔ سانس کی نالی ایک لمحے کیلئے خودبخود بند ہوجاتی ہے۔ دماغ؛ اگر یہ کام اپنے آپ نہ کرتا تو کھانے کے ذرات سانس کی نالی میں چلے جاتے اور انسان سانس رکنے سے موت کا شکار ہو جاتا۔

دانتوں سے پیسی ہوئی اور لعاب ملی خوراک کو پیسنا معدے کے لیے کوئی بڑی بات نہیں۔ اس کے لیے معدے کے مسلز کو طاقت بخشی گئی ہے ۔ جیسے دل کے مسلز ساری زندگی خون پمپ کرتے رہتے ہیں ۔ لعاب خارج ہونا‘ نگلتے ہوئے سانس کی نالی کا بند ہونا‘ خوراک کی نالی کے مسلز کا خوراک کو نیچے کی طرف دھکیلنا‘ معدے کی دیواروں کی مسلسل حرکت‘ یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ جن میں انسان کا شعوری طور پر کوئی بھی عمل دخل نہیں ہے۔اگر یہ سب کام ہمیں خود کوشش سے کرنا پڑتے توانسان کوئی اور کام کرنے کے قابل ہی نہ رہتا۔

خون جب معدے سے گزرتاہے تویہاں سے گلوکوز لے کر پورے جسم میں سپلائی کرتاہے۔پھر یہ خوراک آنتوں میں داخل ہو جاتی ہے۔ آپ خوراک کی نالی کو دیکھیں‘ معدے کو یا آنتوں کو‘ ہر جگہ آپ کو ایسے مائع نظر آئیں گے‘ جواسے گیلا رکھتے ہیں‘ تاکہ خوراک آسانی سے آگے کی طرف جا سکے۔ معدے میں خورا ک کو مکمل طور پر ہضم کرنے کیلئے تو نہ صرف خصوصی طور پر تیزاب خارج ہوتے ہیں‘ بلکہ معدے میں ایک خاص الخاص پردہ بھی اللہ نے پیدا کیا ہے تا کہ یہ تیزاب معدے کے خلیات کو نقصان نہ پہنچا سکے بلکہ صرف خوراک ہضم کرے ۔

آنتوں کے مسلز میں اگرطاقت نہ ہو تو‘ وہ خوراک کو کیسے جسم سے باہر نکالیں؟آپ یہ بھی دیکھیں کہ معدے پر انسان کا کنٹرول نہیں مگر آنتوں پر اتنا کنٹرول دیا گیا ہے کہ اچانک بول و براز نکل نہ جائے اور یوں انسان کو شرمندگی سے بچا لیا گیا ہے ۔

یہ پورا نظامِ انہضام چیخ چیخ کر ایک عظیم ڈیزائنر‘ ایک عظیم کیمیا دان کا نام لے رہا ہے۔ ہم ہیں کہ آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ ان سب چیزوںمیں کہیں بھی‘ ایک چھوٹا سا مسئلہ بھی آجائے‘ خوراک کی نالی کے مسلز کمزور ہو جائیں‘ معدے میں تیزابیت زیادہ ہو جائے‘ آنتوں میں زخم اور انفیکشن ہو جائے‘ انسان بے چارگی کے ساتھ ڈاکٹر کی طرف بھاگتا ہے ۔ یہی انسان جب دوسروں کی زمینوں پہ قبضے کرتا اور انہیں قتل کی دھمکیاں دے رہا ہوتاہے تو اس وقت اس سے بڑا فرعون ہی کوئی نہیں ہوتا۔

یہ کہانی تو ہے نظامِ انہضام کی۔ کیسے دل‘ پھیپھڑے اور گردے اس کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے انسان کو زندہ رہنے میں مدد دیتے ہیں؟ دل سے خون معدے میں جاتا ہے گلوکوز لیتاہے‘ پھر یہ خون پھیپھڑوں میں جاتا ہے‘ آکسیجن لیتاہے‘ پھر یہ گلوکوز اور آکسیجن پورے جسم کے ایک ایک خلیے کو سپلائی کرتاہے‘ پھر جب یہ خون گردوں سے گزرتاہے تو Wasteکو الگ کر دیا جاتاہے۔

ان نالیوں کی لمبائیاں‘ چوڑائیاں‘ ان کے مسلز کی طاقت‘ ان میں موجود رطوبتیں‘ یہ سب ایک ڈیزائن کے تحت بنی ہیں۔ ڈیزائن نظر آرہا ہے‘ ڈیزائنر؛ البتہ حجاب میں ہے!صرف ڈاکٹر ہی اسے دیکھ سکتے ہیں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)