آبادی میں خطرناک حد تک اضافہ

August 08, 2022

آبادی ایک ایسا’’بم ‘‘ہےجس سے پاکستان کو شدید ترین خطرہ لاحق ہے۔ کیا ہمیں ہندوستان سے خطرہ ہے ؟ کیا ہمیں کسی دوسرے دشمن ملک سے خطرہ ہے؟ ہوسکتا ہے ہو مگر ہمیں سب سے زیادہ خطرہ ایک ایسےبم سے ہے جو ہمارے لیے کسی بھی وقت تباہی کا باعث بن سکتا ہےاور جس کےنتیجے میں ایسی تباہی آسکتی ہے جس کا ہمیں فی الحال اندازہ نہیں۔ کچھ دن پہلے قادر پٹیل، جو وفاقی وزیر صحت ہیں، کے ایک بیان کوزبردست تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوںنے کہا تھا کہ جسے بچے پیدا کرنے کا شوق ہو وہ کسی ایسے ملک میں چلا جائے جہاں مسلمان کم تعداد میں ہوں۔ مطلب یہ کہ جب ہمارے وسائل اجازت ہی نہیں دیتے کہ ہماری آبادی بڑھے تو ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے ملک کے وسائل پر مزید بوجھ نہڈالیں۔ ایک طبقہ کھل کر منصوبہ بندی پروگرا م کی مخا لفت کرتا ہے۔خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کا آغاز1960کی دہائی میں کیا گیا تھا۔ معاشرے کے بعض طبقات کی طرف سے انسدادِ پولیو مہم کی مخالفت بھی ایک سنگین رجحان ہے۔ ہیلتھ ورکرز کو ہراساں کیا جاتا ہے اور ان پر حملے کئے جاتے ہیں۔ اس خطے میں آبادی کا تناسب 2.4فی صد سے زیادہ ہے۔ نتیجتاً، پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے سے پانچویں نمبر پر آ گیا ہے۔ اس شرح سے ہماری آبادی موجودہ (پچھلی مردم شماری کے مطابق، تقریباً 242 ملین) سے بڑھ کر 2030 کے آخر تک285-300نفوس تک پہنچ جائے گی۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت اس کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی، جہاں آج آبادی صرف 164.7 ملین ہے۔ہمیں جہاں بنگلہ دیش سے دیگر چیزیں سیکھنی چاہئیں وہاں ہمیں اس کے آبادی کنٹرول کرنے کے فارمولے پر بھی عمل کرنا ہوگا۔ یہ ممکن نہیں کہ گھر میں ایک کلو آٹا ہو اور کھانا کھانے والے افراد 11ہوں۔ یہی حال پاکستان کا ہے، وسائل کم ہیں اور آبادی زیادہ۔ لوگوں کیلئےروزگار کے مزید مواقع پیدا کرنا ممکن نہیں ۔ زیادہ لوگوں کیلئے زیادہ خوراک پیدا کرنا ہو گی جو آسان کام نہیںہے،آبادی میں یہ بے تحاشہ اضافہ ہماری سماجی پریشانیوں کو بڑھا رہا ہے اور معیشت کو بری طرح متاثر کر رہا ہے لیکن سب سے زیادہ تشویشناک امریہ ہے کہ کسی بھی سطح پر بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جا رہی۔ درحقیقت لوگوں کو خود ہی سوچنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ پاکستان کے بدلتے حالات تیزی سےبد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنےکیلئے حکومت کی طرف سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے،کیوں کہ ہمیںوسائل کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ آبادی کی منصوبہ بندی سے متعلق پالیسی صوبوںکے بجائے وفاق کو تشکیل دینی چاہئے ، یہ مگر اتنا آسان کام نہیں ہے، ہمیں تمام طبقات کو آگے لانا ہوگا، ان سے کام لینا ہوگا۔مذہبی طبقات کی خدمات بھی حاصل کرنا ہوں گی ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایوب خان کی حکومت کے بعد پاکستان میں آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی منصوبہ بندیکی ہی نہیں گئی۔یہ امر قابل افسوس ہی نہیںبلکہ قابل توجہ بھی ہے۔ کسی بھی حکومت نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا، ان میں سے اکثر کو غالباً یہ خدشہ رہاکہ اس باب میں کوئی بھی قدم ہنگامہ کھڑا کر سکتا ہے، بظاہر پاکستان کی قیادت بعض طبقوں سےخوفزدہ ہے۔ میرے خیال میںیہ قیادت کی ناکامی ہے کہ وہ قوم کے بہترین مفاد میں آبادی کو کنٹرول کرنے کی بجائے کچھ مخصوص طبقات کے دبائو میں اس حوالے سے منصوبہ بندی نہیںکر رہی ۔یاد رہے کہ یہ ایک ایسا’’بم ‘‘ہےجو کسی بھی وقت پھٹ سکتاہے۔