صدر مملکت اور قومی مفاہمت

August 14, 2022

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی اختلافات پر اظہار تشویش یقینا بجا ہے جس کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز گورنر ہاؤس لاہور میں سینئر صحافیوں سے گفتگو میں کیا۔ صدر کا کہناتھا کہ ملک کے موجودہ معاشی اور سیاسی حالات کے بارے میں سب کو سوچنا ہوگا۔ وفاق اور صوبوں کے تنازع کو ملک کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں کا اپنی انا ختم کرکے ایک میز پر بیٹھنا وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ صدر کا کردار آئینی ہوتا ہے اور ملک کے آئینی سربراہ کی حیثیت سے تمام ادارے اس کے لیے قابل احترام ہوتے ہیں لہٰذا میری خواہش ہے کہ ملک کے لیے اپنا کردار ادا کروں۔صدر مملکت نے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو کہتا رہتا ہوں کہ چیزیں ٹھیک نہیں ہیں، سیاست دان ایک میز پر نہیں بیٹھ رہے، ان کو اکٹھا بٹھانے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ فوج کو زیر بحث نہ لایا کریں، فوج ملکی سلامتی کی ضامن ہے، فوج کو متنازع نہیں بنانا چاہیے۔صدر مملکت نے صراحت کی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا فوج ہی کا کام تھا، اس کا احترام کرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ ملک کی خاطر شہباز شریف اور عمران خان سے بات کرنے کے لیے تیار ہوں، میری کوشش ہوگی کہ نفرتیں کم ہوں اور جلد انتخابات کے لیے ماحول سازگار بنایا جاسکے۔ صدر کا یہ اظہار خیال فی الحقیقت وقت کے تقاضوں کی بالکل درست نشان دہی ہے۔ اپنے منصب کی پوری مدت میں شاید پہلی بار وہ اس بات چیت میں ایک سیاسی جماعت کے کارکن کے بجائے واضح طور پر پوری قوم کے سربراہ کی حیثیت سے نمایاں ہوئے ہیں۔ انہوں نے شروع ہی سے یہ کردار ادا کیا ہوتا تو ملک میں سیاسی تفریق کی یہ شدت یقینا نہ ہوتی جو پچھلے چار سال سے نظر آرہی ہے۔ تحریک انصاف کے دور میں پارلیمان کو عضو معطل بنا کر رکھا گیا، بیشتر قانون سازی کے لیے صدارتی آرڈیننس کا طریق کار اپنایا گیا۔ غیرجانبدارانہ اور منصفانہ احتساب کے دعوے عملاً سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائی بنے رہے۔ احتسابی اداروں کو حکومت کے اشاروں پر چلایا جاتا رہا۔آزادی اظہار پر نت نئی پابندیاں عائد کی جاتی رہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سراسر ناجائز کارروائی عمل میں لائی گئی اور صدر مملکت نے بظاہر ان تمام معاملات میں حکومت کی عملی حمایت کی۔ تاہم اب اگر وہ ملک کے آئینی سربراہ کی حیثیت سے قومی مفاہمت کی خاطر اپنا کردار ادا کرنے کے خواہش مند ہیں تو حکومت اور اپوزیشن سب کو اس کا خیرمقدم کرنا چاہیے لیکن جائز اور منصفانہ احتسابی عمل کواس کے نتیجے میں متاثر نہیں ہونے دیا جانا چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن سب کے وابستگان کے شفاف اور غیرجانبدارانہ احتسابی نظام کا ہمہ وقت فعال رہنا بھی ہماری قومی ضرورت ہے بصورت دیگر آئین اور قانون کی پابندی کا تصور ہی معاشرے سے ختم ہوجائے گا۔صدر کے بقول وہ جلد الیکشن کو مسائل کے حل کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اس کے لیے سیاسی طاقتوں میں اتفاق رائے کے خواہاں ہیں لیکن موجودہ حکومت کے اقدامات سے معاشی صورت حال میں بہتری کا جو عمل شروع ہوا ہے، روپے کی قدر جس تیزی سے بڑھ رہی ہے، اسٹاک ایکسچینج کی رونقیں جس طرح بحال ہوگئی ہیں، آئی ایم ایف کے بعد دیگر ذرائع سے مالی تعاون کے جو راستے کھلنے کے امکانات ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ سیاسی سیٹ اپ اپنی آئینی مدت پوری کرے۔ لہٰذا منصفانہ احتسابی نظام، انتخابی اصلاحات اور میثاق معیشت جیسی اہم ضرورتوں کو تو قومی مفاہمت کا موضوع ضرور ہونا چاہیے لیکن آئندہ انتخابات جن میں یوں بھی محض بارہ پندرہ مہینے باقی ہیں ، وقت سے پہلے ان کے انعقاد پر بات چیت معاشی بحالی کے عمل پر یقینا منفی اثر ڈالے گی لہٰذا اس سے گریز ہی بہتر ہوگا۔