75 واں جشن آزادی مبارک

August 14, 2022

پاکستانی قوم آج 14 اگست2022کو اپنا 75واں جشن آزادی منا رہی ہے ۔ ٹھیک پون صدی قبل 14 اگست 1947کو یہ ملک بنا، اس دن 27 رمضان المبارک اور لیلتہ القدر تھی، اس کے دوسرے دن یعنی 15 اگست 1947 کو بھارت وجود میں آیا ۔ مگر ہم ان دونوں ممالک کی ترقی اور کامیابی کا موازنہ کریں توہم میں صرف تین چیزیں مشترک نظر آئیں گی ۔ پہلی دونوں ایٹمی طاقت ہیں ، دونوں کے حکمرانوں پر کرپشن کے بے تحاشا الزامات ہیں اور دونوں ممالک میں عدلیہ آزاد ہے اور غربت سے ستائے عوام کی قسمت نہیں بدلی۔ البتہ بھارت نے اپنی 10گنا زیادہ آبادی کے باوجود جاگیرداری نظام ختم کیا اور تعلیمی میدان میں ہم سے سبقت حاصل کی ۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہاں کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو طویل عرصہ تک زندہ رہے اور انہوں نے مستحکم جمہوریت، مضبوط عدلیہ اور تعلیم کے ساتھ ساتھ جاگیردارانہ نظام ختم کرکے قوم پر بہت بڑا احسان کیا اور ساتھ ساتھ فوج کو بھی ملکی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنے دی۔ اس کے برعکس قائداعظم صرف ایک سال زندہ رہے اور قائدِ ملت اور ملک کے اولین وزیر اعظم لیاقت علی خان کو تقسیم کے چار سال بعد شہید کرکے ملک کو بے یار و مددگار چھوڑ دیاگیا۔ رہی کسر ہمارے سیاستدانوں نے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کرکے فوج کو صرف 11 سال بعد ہی آمریت کا راستہ دکھا دیا۔ اس کے بعد تو گویا اقتدار ہر 10 گیارہ سال بعد فوج اور سیاستدانوں کے درمیان میوزیکل چیئر بنا رہا۔ اس طرح پاکستان صرف ایک دن کے فرق سے بھارت سے بہت پیچھے رہ گیا اور پھر بھارت نے بھی، جتنا نقصان وہ پاکستان کو پہنچا سکتا تھا، ہر ہر طریقے سے پہنچایا۔ یہاں تک کہ 1971میں ہمارے ملک کے دو ٹکڑے کروادیے ۔ اب حال یہ ہے کہ تمام یورپی اور امریکن ایئر لائنز ہمارے ملک سے جاچکی ہیں، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہم دیارِ غیر میں جاکر کرکٹ کھیلتےرہے۔ بھارت اور پاکستان کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کا موازنہ کیا جائے تو دونوں ملکوں کے عوام ان کی کرپشن سے تنگ آچکے ہیں۔ ہمارے ہاں اگر اربوں کی کرپشن ہو رہی ہو تو بھارت میں اخبارات کھربوں کی کرپشن کی نشاندہی کر رہے ہیں ۔ ہر میدان میں کرپشن عام ہو چکی ہے مگر بھارت میں اب بھی قومی اسپرٹ ہے، وہ بھارت کو بھارت ماتا کہتے ہیں ۔ ہم اپنے ملک کو خود بدنام کرنے میں سب سے آگے ہیں۔ بھارت میں کرپشن کو روکنے کے لئے وہاں کے عوامی لیڈر اَنا ہزارے میدان میں اترے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ہمارے ملک میں عمران خان گزشتہ 22برس سے کرپشن کے خاتمے کے لئے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں اور کامیاب جلسوں اور نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملا کر انقلاب لانے کی باتیں کرتے رہے اور بالآخر حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے اور ساڑھے 3سال حکومت میں بھی رہے مگر وہی پرانی سیاست کہ ان کو بھی ہٹا دیا گیا ۔اور اب ان کو فارن فنڈنگ کیس کے ذریعے سیاست سے آئوٹ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ان کو سیاست سے تو آئوٹ کیا جا سکتا ہے مگر عوام کے دلوں سے آئوٹ نہیں کیا جا سکتا ۔

برطانیہ کے شہر برمنگھم میں حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والی کامن ویلتھ گیمز کے مقابلوں میں 40 سے زائد ممالک نے حصہ لیا، جس میں پاکستان نے 2 طلائی، 3 چاندی اور 3 کانسی کے تمغے حاصل کرکے 18ویں پوزیشن حاصل کی۔ یہ پوزیشن عالمی معیار کے اعتبار سے شاید بہت قابلِ تحسین نہ ہو لیکن ہمارے قومی معیار کے تحت بری نہیں کیونکہ ایک ایسا ملک جہاں کا قومی کھیل ہاکی کھیلا ہی نہ جاتا ہو۔تمام تر توجہ اور بجٹ کا بڑا حصہ کرکٹ پر خرچ ہو، اسکول و کالج کی سطح پر بھی ایتھلیٹکس اور کھیلوں کی سرپرستی کا کلچر دم توڑ چکا ہو، کامن ویلتھ گیمز میں پاکستانی ایتھلیٹس کی یہ کارکردگی قابلِ تحسین بھی ہے اور قابل فخر بھی۔

بلاشبہ ارشد ندیم اور نوح بٹ نے کامن ویلتھ گیمز میں طلائی تمغے جیت کر پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔ جیولین تھرو کے مقابلوں میں ارشد ندیم نے بہترین کارکردگی دکھا کر دل جیتنے کے ساتھ ساتھ میڈل بھی حاصل کیا۔ آپ کو یاد تو ہوگا کہ ٹوکیو اولمپکس میں ارشد ندیم نے پانچویں پوزیشن حاصل کی تھی۔ لیکن اب کی بار کامن ویلتھ گیمز میں تو ارشد ندیم نے کمال کردیا، انہوں نے انجری کے باوجود 90 اعشاریہ 18 میٹر کی سب سے لمبی تھرو پھینک کر ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ یہ تھرو نہ صرف کامن ویلتھ گیمز کا نیا ریکارڈ ہے بلکہ ارشد ندیم کے کیریئر کی بھی بہترین تھرو ہے۔ ارشد ندیم کی اس کامیابی پر نامور کھلاڑیوں نے تو مبارکباد دی ہی ہے‘ وزیراعظم اور آرمی چیف نے بھی ان کی ہمت بندھائی ہے۔