لاکھوں ایکڑ اراضی سمندر برد

August 15, 2022

چند برس قبل عالمی بینک کی ٹیم نے سندھ حکام کو ایک بریفنگ کے دوران لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی کو سیم اور تھور سے بچانے کے حوالے سے کثیر الجہتی منصوبوں کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اس موقع پر سمندری پھیلاؤ بڑھنے اور آبی حیات میں تیزی سے کمی واقع ہونے کے مسائل بھی زیر غور آئے تھے۔ وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی شیریں رحمان نے ہفتے کے روز میڈیا کے سامنے یہ پریشان کن انکشاف کیا ہے کہ ضلع ٹھٹھہ میں اب تک کھڑی فصلوں پر مشتمل 14 لاکھ ایکڑ اراضی سمندر برد ہوچکی ہے نیز اس کے ساتھ بلوچستان کے متصلہ اضلاع میں زیر زمین پانی تیزی سے نمکین ہورہا ہے۔ یہ علاقہ گندم،چاول، کماد، کھجور،آم اور پان کی فصلوں سے جانا جاتا ہے۔ گو کہ کرہ ارض پر تغیرات کا آنا ایک قدرتی عمل ہے تاہم انسان نے سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت اپنی پہنچ کے مطابق جہاں تک اس سے ممکن ہوسکا درپیش حالات سے نمٹنے کی کامیاب سعی کی ہے۔ عالمی ماہرین نے خبردار کر رکھا ہے کہ پاکستان میں سمندر کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے 2050 تک ساحلی علاقوں کا ایک وسیع حصہ غرق آب ہو سکتا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق ہر سال دریاؤں کا محض 9 فیصد پانی استعمال میں لایا جارہا باقی سمندر میں گررہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پہلے دریائے سندھ کا 180 ملین ایکڑ فٹ پانی 400 ملین ٹن مٹی لیکر سمندر میں شامل ہوتا تھا لیکن گذشتہ کئی برس سے الٹا سمندری پانی دریائے سندھ میں داخل ہو کر مضافاتی علاقوں کے سمندر برد ہونے کا باعث بن رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ گو کہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے تاہم اس کے زیر اثر آنے والا ایک قابل ذکر حصہ جنوبی ایشیا کا ہے۔ عالمی ماہرین پاکستان کوممکنہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے زیادہ سے زیادہ ڈیم بنانے، جنگلات کی حفاظت اور اس کے رقبے میں خاطر خواہ اضافے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں تاہم ان پر عمل کرنا بہر حال حکومت اور قوم کا کام ہے۔