قلت ِآب، بد انتظامی کا نتیجہ

August 15, 2022

کراچی، یقیناً، دنیا کا واحد میٹروپولیٹن شہر ہے جو اپنے حصے کے پانی کےلئےجدوجہد کر رہا ہے۔ اس کی وجوہات منصوبہ بندی کی کمی، بدانتظامی کے ساتھ ساتھ اس شہر کی بے ہنگم طریقے سے پھیلتی چلی جانے والی آبادی ہے ،جس کا دل چاہتا ہے پانی کی پائپ لائن میں کنکشن ڈال کر پانی لے لیتا ہے اور جس کا جتنا بس چلتا ہے اتنا پانی چوری کرلیتا ہے۔اسی شہر میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں پانی کا بل تو باقاعدگی سے آتا ہے مگر پانی نہیں آتا۔ اس کی وجہ پانی کی قلت، تقسیم کے نظام کا فقدان اور ٹینکر مافیا کا راج ہے، کراچی والے زندگی کی بنیادی ترین ضرورت پانی سے محروم ہیں۔یہ عام بات ہے کہ لوگ بھاری رقم خرچ کرکےواٹر ٹینکرز پر انحصار کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دھابیجی پمپنگ اسٹیشن سے روزانہ 550ملین گیلن پانی چھوڑا جاتا ہے۔ کراچی کے پانی کا بنیادی ذخیرہ بلوچستان کے علاقے حب میں ہے، لیکن اس کی فراہمی کا طریقۂ کار آج تک ایک راکٹ سائنس بنا ہوا ہے۔ شہر کی آبادی میں اگرچہ کئی گنا اضافہ ہوا ہے، لیکن سندھ طاس معاہدے کی رو سے کراچی کواضافی پانی نہیں ملا۔ 2007میں شروع کیا گیا K-IV، منصوبہ جس میں روزانہ 650ملین گیلن پانی جمع ہوگا اب تک شروع نہیں ہو سکا اور اسکی لاگت 25ارب روپے سے بڑھ کر 150ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔ کراچی ٹرانسفارمیشن پیکیج کے تحت بھی جو پیسہ مختص تھا وہ بھی آج تک نہیں ملا۔ پی ٹی آئی کی حکومت جھوٹے وعدے کرتی رہی مگر شہر کو کچھ نہ ملا۔ پی ٹی آئی کے درجنوں ایم این ایز تھے، اس شہر میں لیکن نکاسیٔ آب اور پانی کے لئے ایک روپے کا بھی کوئی منصوبہ شہر میں نظر نہیں آتا۔ کراچی کے شہریوں کو جو پانی ملتا ہے وہ ٹھٹھہ سے یا پھر حب سے مل رہا ہےاور وہ اگرنہ ملے تو یہ شہر پانی کی بوند بوند کو ترسے لیکن واٹر ٹینکر ہیں کہ سڑکوں پر دوڑتے نظر آتے ہیں۔ ہم نے معیشت کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہر کچھ ماہ بعد ہم زر مبادلہ کے ذخائر کی کمی کا رونا روتے نظر آتے ہیں کہ ملک میں ڈالر نہیں، جس کے نتیجے میں ڈالر کی ذخیرہ اندوزی شروع ہوجاتی ہے اور ڈالر کی قیمت اوپر چلی جاتی ہے۔ ڈالرکی ہمیں اسلئے ضرورت ہوتی ہےکہ ہم اپنے امپورٹ بل کے بدلے میں یہ ڈالر دے سکیں اور امپورٹ بل میں پیٹرولیم مصنوعات ہی سب سے اہم ہیں جو ہم درآمد کرتے ہیں۔ کراچی کی سڑکوں پر پرائیویٹ ٹرانسپورٹ بہت زیادہ ہےجسے اگر کم کردیا جائے تو ملک کا درآمدی بل کم ہوسکتا ہے کیوں کہ جتنا تیل سڑکوں پر کم استعمال ہوگا اتنے ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔ اب ہمارے سامنے یہ ٹینکر مافیا ہے ایک دن میں کم و بیش دس ہزار سے زائد ٹینکر کراچی کی سڑکوں پر دوڑتے نظر آتے ہیں اور اگر ایک ٹینکر میں 3000 روپے کا تیل استعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دن میں پانی کے یہ ٹینکر 3 کروڑ روپے کا تیل پھونک دیتے ہیں یعنی ایک مہینے میں 90 کروڑ روپے کا تیل صرف ان پانی والے ٹینکرز کے نام پر استعمال ہوجاتا ہے اور ریاست کو اس کے بدلے میں لاکھوں ڈالر دے کر یہ تیل منگوانا پڑتا ہے جس سے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر دبائو پڑتا ہے اور ملکی معیشت کو اس سےنقصان پہنچتاہے۔ اگر یہی 90 کروڑ روپے کراچی میں پانی کے نظام کو بہتر بنانے پر صرف کردیئے جائیں تو نہ صرف ٹینکر مافیا سے جان چھوٹ جائے گی بلکہ ملک کا زرِمبادلہ بھی بچے گا۔ اربابِ اختیار کو سوچنا چاہئے کہ ہم کب تک ملک کا نقصان کرتے رہیں گے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر کو بچانے کیلئے ہمیں بیماری کی جڑ کو کاٹنا ہو گا کہیں ایسا نہ ہوکہ دیر ہوجائے۔ کراچی میں پیپلز بس سروس کا آغاز ایک اچھا عمل ہے جس سے پیٹرول اور ڈیزل کا استعمال کم ہوگا اور زرِمبادلہ کے ذخائر پر کچھ فرق پڑے نہ پڑے کم از کم اتنا تو ضرور ہوگا کہ ماحول میں کچھ بہتری آئے گی کیوں کہ قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے اور کراچی سے اگر ٹینکر مافیا کا خاتمہ ہوجائے تو ایک طرف ٹریفک کےمسائل میں کمی آئیگی اوردوسری طرف یہ جو کروڑوں روپے کا تیل استعمال ہورہا ہے اس سے بھی گلو خلاصی ہو جائیگی اور قومی خزانے پر بھی بوجھ نہ ہوگا بلکہ جب گھروں میں لائن سے پانی مل رہا ہوگا تو کراچی واٹر بورڈ کی آمدنی میں اضافہ ہوگا ، سب سے زیادہ فائدہ ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو ہوگا کیوں کہ تیل کی جتنی کھپت کم ہوگی اتنا ہی قوم کو فائدہ ہوگا۔ خدارا فیصلہ کریں اور کراچی کی اس ٹینکر مافیا سے جان چھڑائیں۔