سر رہ گزر

September 11, 2022

ہمہ جہت سیلاب

پانی، مہنگائی او رسیاست کا سیلاب ہے اور ہم ہیں دوستو،نہ کوئی جائے قرار ہے نہ جائے فرار، اک طرفہ تماشا ہے اس قوم کی قسمت بھی کہ ہر ایک دوسرے سے کہتا ہے تیری قسمت ہی خراب ہے، بعض کے بخت تو تخت نشین ہیں اور کچھ کے تختہ ۔عوام الناس کے گھر بپتا ایسی مہمان بنی ہے کہ مہمان نواز نے لے لی اس کی جان۔ کوئی افلا طون ہے، کوئی ارسطو اور کوئی فرعون جس کیلئے کوئی موسیؑ ہی نہیں بس ایک قدم استحکام کا نیل ہے جو 12مہینے اس پاک سرزمین پر چڑھا رہتا ہے، ہر طرف سے امداد آ رہی ہے مگر بھوکوں پیاسوں میں یہ بات عام ہے کہ بے بس ہیں اور کوئی پوچھنے ہی نہیں آتا، ہمارے فعال وزیر اعظم تحقیق کرائیں کہ آخر امداد جاتی کہاں ہے یا پھر سیلاب کا پیٹ اتنا بڑا ہے کہ کتنے سی ون تھرٹی اس میں اتر گئے اور ہل من مزید کی صدائیں نہیں رُک رہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اٹھائے کچھ ورق نرگس نے کچھ لالے نے کچھ گل نے اور چمن کی داستان ہی گم ہے ، مہنگائی کا سیلاب سفید پوش لوگوں کا لباس اس قدر تر کر گیا کہ بن پانی وہ گردن تک آبِ گرانی میں غرق ہیں۔ حکومت دن رات محنت کرکے ہلکان ہوگئی ہے۔ وزیر خزانہ ایک ہی بات دہراتے رہتے ہیں جب مالی سے گاڑی چلوائو گے تو گاڑی بھی خراب اور باغ بھی برباد، پتہ نہیں وہ مالی کون ہے؟ بہرصورت ہر ایک مخلص اور محبِ وطن ہے اور یوں شاید خلوص کا بھی سیلاب آگیا۔ کثرت کسی چیز کی بھی ہو ۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

چور کون ؟

بہت سوچا بہت ڈھونڈا مگر کہیں چور نہ ملا البتہ یہ ایک خودساختہ شعر قلم پر آ گیا ؎

جب بھی چوروں کی بات ہوتی ہے

تیرے جلسوں کی یاد آتی ہے

دنیا میں چور اور سادھو ہمیشہ موجود رہے ہیں البتہ آپ ان کو پکڑ سکتے ہیں نہ پا سکتے ہیں۔ کہتے ہیں ہمیشہ منہ سے اچھی بات نکالنی چاہئے اب اس بات پر بھی اجتماعی اتفاق ہو جانا چاہئے کہ ہم سب چور ہیں اور کسی چوری نہ کرنے والے کو تلاش کر رہے یا اس جملے کو الٹا کر دیکھ لیں، ہماری رائے ہے کہ چور ڈاکو کا ورد چھوڑ دیں تو شاید ہم سب پاک صاف ہو جائیں۔کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی کو بھی چور نہ گردانا جائے؟ ممکن ہے ہماری کہیں درمیان میں پھنسی ہوئی ترقی چل پڑے ۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

مانگنا اپنے سگے ماں باپ سے درست نہیں :حدیث

ہم بھی کیسے سیانے ہیں کہ مانگنے میں عزت ڈھونڈتے ہیں یہ عادت ایک بار پڑ جائےتو پھر نہیں جاتی، 75برس کام میں لائے ہوتے تو آج ہمارا ہر شہر پیرس ہوتا۔ ایک گیت ہے ؎

جانا تھا ہم سے دور بہانے بنا لئے

اب تم نے کتنی دور ’’پیرس‘‘ بنالئے

ہمارے جو ہرَ قابل کی اکثریت پاکستان چھوڑ کر چلی گئی۔ مجھےیاد ہے ایک مولوی چنن دین ہوا کرتے تھے سر پر تنکوں کی ٹوپی رکھتے تھے اور داڑھی کو دائمی مہندی لگاتے تھے، وہ اپنے ہر جمعہ کے خطبے میں یہ شعر ضرور ترنم سے پڑھا کرتے تھے ؎

گل گئے ،گلشن گئے ،خالی دھتورے رہ گئے

عقلاں والے ٹر گئے تے لنگڑے لولے رہ گئے

گو کہ ہم مانگتے تو نہیں مگر شوقیہ مانگتے ہیں کیونکہ ہمارے ملک کو ربِ کریم نے ہر نعمت سے نوازا ہے مگر ’’ونڈ‘‘ کے نہ کھانے کے باعث اور سیاست کو آپس کی ذاتی لڑائی سمجھ کر مستحکم نہ ہوسکے۔ بے برکتی کی وبا نے ہم سے سب کچھ چھین لیا اور اب در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں پھر بھی پوری قوم کا پیٹ خالی ہے مہنگائی اتنی سستی ہوتی جا رہی ہے کہ جب چاہو ڈھیروں اٹھا کر گھر لے آئو ۔ لوگ کسی مسیحا کے منتظر ہیں حالانکہ بقول اقبالؒ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ ،جہاں خودغرضی ڈیرے جمالے پھر ڈیرہ داری الٹ جاتی ہے محبتیں ، اخلاقیات اور اتفاق و اتحاد رخصت ہوجاتا ہے۔ معذرت آج کے کالم سے اگر دل دُکھا ہو اب ہمارے پاس دل دکھانے کے سوا رہ بھی کیا گیا ہے۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

ایک غیرانسانی عمل

٭اسلام آباد ہائیکورٹ کا کلمۂ حق۔ جبری گمشدگیاں ناقابلِ برداشت، آئین توڑنے کے مترادف۔

آئین کا آئینہ توڑتے ہمیں 75برس ہو گئے اس لئے کسی کو اپنا چہرہ نظر نہیں آتا۔وزیر اعظم نے اعلیٰ عدلیہ کو یقین دہانی کرا دی ہے، اللہ تعالیٰ انہیں اس حقیقی اور عظیم نیکی میں کامیابی عطا فرمائے ،آمین بحرمتہ سید المرسلینﷺ۔

٭ہمارا سب سے بڑا دشمن مہنگائی ہے مگر کیا کریں ہمارے پاس ہینگ ہے نہ پھٹکری۔

٭مائنس ون :یہ لفظ ترک ہی کر دیں ،کہ کہیں مائنس آل نہ ہو جائے۔

٭ایک دو چینلز کو حق ، سچ کا نمائندہ نہ بنایا جائے سارے چینلز اس ملک کے وفادار ہیں اور سچ ہی پیش کرتے ہیں اسی طرح یہ لفظ بھی حرام کر دیا جائے کہ فلاں لفافہ جرنلسٹ ہے ۔جائیں جرنلسٹوں کے احوال دیکھیں آپ کو لفافے کے عدم وجود کا یقین آ جائے گا، میڈیا خدا کیلئے یکجا ہو جائے ایک دوسرے کی ٹانگ نہ کھینچے تاکہ عزتِ رفتہ بحال ہو ریٹنگ کی رَٹ لگانا بھی ترک کر دیں۔

٭٭ ٭ ٭ ٭