ریاست، سیاست اور عوام

September 23, 2022

تمام سیاسی جماعتوں نے عوام کو بری طرح مایوس کیاہے۔ سیاستدانوں کو نہ تو ریاست کی فکر ہے نہ ہی عوام کا احساس ۔ موجودہ حکومت کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا کہ اس کا ایجنڈا کیا ہے۔

70فیصد ملک سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہے۔ کروڑوں لوگ بے گھر اور بے در ہوکر سڑکوں پر پڑے ہوئے ہیں۔ لاکھوں ایکڑ رقبے پر فصلیں اور باغات تباہ وبرباد ہوگئے ہیں۔

لاکھوں مال مویشی سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں لیکن مجال ہے سیاستدانوں کو ان بے یارومددگار وں کی ذرہ بھر فکر ہو۔

یہی وہ عوام ہی ہیں جو سردی، گرمی یا بارش ،آندھی ہو قطاروں میں کھڑے ہوکر ان ہی سیاستدانوں کوووٹ دینے کے لئے بیتاب نظر آتے ہیں۔بلکہ باقاعدہ آپس میں ان کے لئے لڑتے جھگڑتے بھی ہیں۔

پھر چند مخصوص منظورِ نظر افراد کو چھوڑ کر سیاستدان ان ہی عوام کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں وہ ان عوام سے بہتر کون جانتا ہے۔ لیکن افسوس کہ یہی عوام اگلی بار سب کچھ بھول بھال کر پھر سے ان ہی سیاستدانوں کے پارٹی پر چم اٹھائے زیادہ جوش وخروش سے جلسوں اور جلوسوں میں شریک ہوتے ہیں اور انتخابات میں پھر اسی جذبے سے سرشار نظر آتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہم کتنے فارغ ہیں کام کاج کے بجائے ایسے بے کار وبے مقصد مشاغل میں مصروفیت سے خوشی اور سرور محسوس کرتے ہیں۔

عمران خان کو دیکھ لیں جن کو نہ عوام کی فکر ہے نہ ریاست کی، اگر ان کو فکر ہے تو اپنی سیاست اور مفادات کی ۔پھر بھی دیکھ لیں ان کے جلسے جلوسوں میں لوگ شامل ہوتے ہیں۔

انہوں نے خصوصی طور پر نوجوانوں کو ورغلایا ہے۔ جن کے ذہن کچے اور وقتی سوچ رکھتے ہیں۔ نہ ان کو اپنے گھر والوں کی فکر ہے نہ اپنے مستقبل کی۔ نہ کوئی کام نہ کاج۔ان کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ یہ سب کچھ کیوں کرتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ان کو اپنے مستقبل اور عملی زندگی کی بھی کوئی پروا نہیں ہے۔

ان میں خواتین بھی شامل ہیں یہ سب اپنے مستقبل سے بے پرواہوکر شغل میلوں کے دلدادہ بنے ہوئے ہیں۔ ان کے والدین یا تو ان کو سمجھاتے نہیں یا یہ ان کی مانتے نہیں ہیں۔ ان کوسوچنا چاہئے کہ انہوں نے زندگی میں بننا کیا ہے، کرنا کیا ہے، عملی زندگی کیسے گزاریں گے۔ اور یہ چند دن کے شغل میلے کب تک چلیں گے اور یہ بھی کہ ان کی بھی کوئی ذمہ داری ہے یا ان پر بھی ذمہ داریاں آئیں گی۔

کوئی سیاستدان ان کے گھر راشن لاکر دیاکرے گا نہ ان کے بچوں کی کفالت کرے گا۔ ان لوگوں کو اپنی نہیں تو کم ازکم اپنے والدین کی تو فکر ہونی چاہئے۔

موجودہ حکومت کو دیکھ لیں۔یہ کہتے تھے کہ مہنگائی سے عوام کا خون نچوڑنے کا مقصد آئی ایم ایف سے قرضہ لینا ہےتاکہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جاسکے۔ وہ سب کچھ بھی کردیا لیکن یہ بتائیں کہ ملک دیوالیہ ہو ایا نہیں لیکن عام آدمی ضرور دیوالیہ ہوگیا۔ جس کا اپنا گھر بھی ہو اور پچاس ہزار روپے اس کی ماہوار آمدنی ہو وہ گھریلو اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہوگیا ہے تو جو کرایہ کے مکان میں رہتا ہے اس کا کیا حشر ہوگیا ہوگا ۔یہاں تو کوئی سبزی سوروپے کی بھی نہیں ملتی ۔

یہ کیسا زرعی ملک ہے؟ دنیا کے سب سے بہترین نہری نظام کا حامل ہے۔ مگرجہاں آٹا ملنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ پتہ نہیں موجودہ وزیر خزانہ کے پاس کونسی گیدڑ سنگھی ہے جو وہ وزیر اعظم شہباز شریف کی آنکھوں کا تارہ بنے ہیں۔ نہ وہ مہنگائی کو کنٹرول کر سکے نہ ڈالر کی روزافزوں اڑان پر قابو پاسکے پھر بھی شہباز شریف کی ضد ہے کہ یہی وزیر خزانہ رہیں گے۔کیا اس13جماعتی حکومت میں کوئی بھی معاشیات کا ماہر اور اس بدنصیب قوم کا ہمدرد نہیں ہے جس کو وزیر خزانہ بنایا جائے۔

کابینہ ارکان کی تعدادبھی خیر سے چھ درجن کردی گئی ہے ۔ آخر شہباز شریف اور پی ڈی ایم چاہتی کیا ہے۔ اگر اسی طرح اس ملک وقوم کا بیڑہ غرق کرنا ہے تو عمران خان کو بھی ساتھ ملا کر بیٹھیں اور اس ملک اور اس قوم کو فروخت کردیں اور سب اپنا اپناحصہ لے کر چلتے بنیں۔

ورنہ اس بدنصیب اور لاوارث قوم پر رحم کریں، مہنگائی کو کم کریں اور اس قوم کومزید سزا نہ دیں۔ بے شک سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کا یہ موقف اور سوچ بجا ہے کہ بے قصور یہ قوم بھی نہیں ہے۔

قوم کا قصور یہ ہے کہ یہ کیوں بار بار ان کوووٹ دے کر برسر اقتدار لاتی ہے لیکن اس جرم کے باوجود ان گناہ گاروں پر رحم کی درخواست ہے۔ اداروں کی بے توقیری کرنیوالوں کو کچھ کہہ نہیں سکتے تو مہنگائی تو ختم کریں۔

عمران خان کو بھی چاہئے کہ وہ بھی اس ملک اور قوم پر ترس کھائیں اور اس تباہ حال ملک کو مزید بربادی میں دھکیلنے کی کوششیں نہ کریں۔ حاصل پھر بھی ان کو کچھ ہوتا نظر نہیں آتا بلکہ اس وقت جتنے بھی کھلاڑی اس ملک اور قوم کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔ یقین کریں ان میں سے کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔عمران خان کا جلد الیکشن کرانے کا مطالبہ مان بھی لیا جائے اور ایسا ہو بھی جائے تو پھرکیا ہوگا، اس وقت ملک جس نہج پرپہنچ چکا ہے کیا وہ ملک کواس دلدل سے نکال سکیں گے۔

ہرگز نہیں ان کی حکومت ختم ہوئے ابھی پانچ ماہ ہوئے ہیں،مہنگائی اور بے روزگاری کی بنیاد انہوں نے ہی تورکھی تھی۔ آئی ایم ایف کے منت ترلے کرکے اس کے ساتھ مشکل ترین شرائط پر معاہدہ انہوں نے ہی کیا تھا جس کو بعد میں توڑ کرانہوں نے پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیاتھا ۔کیا ملک و قوم کی بربادی ہی ان کا ایجنڈا ہے؟ قوم یہ ان سے ضرور پوچھے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)