کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی

September 24, 2022

پی ڈی ایم حکومت نے ماہ جون میں درآمدات میں غیر معمولی کمی لانے کے حوالے سے جو فیصلے کئے تھے اس کے حوصلہ بخش نتائج اگست کے تجارتی اعداد و شمار میں واضح ہوئےہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ملک کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم ہو کر متذکرہ مہینے میں 70کروڑ ڈالر پر آ یا ہے جو اس سے ایک ماہ قبل ایک ارب 20کروڑ ڈالر تھا ۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی کی بنیادی وجہ برآمدات میں 50 کروڑ ڈالرکا اضافہ اور درآمدات میں 20 کروڑ کی کمی کا ہونا ہے۔ دئیے گئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ تجارت کے ساتھ ساتھ خدمات کےخسارے میں بھی ماہانہ بنیاد پر 0.54فیصد کمی آئی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے توقع ظاہر کی ہے کہ رواں سال کے دوران کرنٹ اکائونٹ خسارہ مزید کم ہو گا۔ واضح ہو کہ درآمدات کے مقابلے میں برآمدات کم ہوں تو خسارے کا عنصر وجود میں آتا ہےاور برآمدات زیادہ ہوں تو یہ کرنٹ اکائونٹ سرپلس ہونےکے ساتھ ساتھ معیشت کے پائیدار ہونےکی ضمانت ہے۔ بینک دولت پاکستان کے مطابق گزشتہ مالی سال کے پہلے گیارہ ماہ میں برآمدات 2020-21ء کے مقابلے میں 27جبکہ درآمدات 36فیصد زیادہ تھیں اور خدمات کی سالانہ بنیادوں پر برآمد میں 18 اور درآمد میں 35 فیصد اضافہ ہوا رواں سال مئی میں سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں کمی کے بعد ان کا حجم 2.33ارب ڈالر رہا جو اپریل کے 3.12ارب ڈالر کے مقابلے میں 25فیصد اور مئی 2021ء کے 2.50 ارب ڈالر کے مقابلے میں سات فیصد کم ہے جس سے مئی 2022ءمیں کرنٹ اکائونٹ خسارہ غیر معمولی طور پر بڑھ کر 15ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا اور شدید عدم توازن کے باعث جولائی 2022ء میں 17ارب 40کروڑ ڈالر پر پہنچ گیا ۔ یہ بھی یاد رہے کہ وفاقی ادارہ شماریات نے فروری 2022ء میں خسارے کا حجم 28ارب 20کروڑ ڈالر بتایا تھا جو پی ٹی آئی ہی کے دور میں صفر بھی رہا۔یہ ایک سادہ سی بات ہے کہ کسی بھی ملک کے اپنی تجارت کے حوالے سے درست فیصلے نفع بخش اور غلط تخمینے نقصان کا باعث بنتے ہیں جبکہ یہ دونوں عوامل عمومی تجارت کا جزو لاینفک ہیں جس میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے تاہم پاکستان جو بنیادی طور پر ایک برآمدی معیشت کا حامل ملک اور زراعت سے لیکر کثیر الجہتی صنعتی شعبےمیں ٹیکسٹائل ، کھیلوں کا سامان، آلات جراحی،چمڑےکی مصنوعات ، گھریلو دستکاریوں اور خدمات کی فراہمی میں دنیا بھر میں نمایاں مقام رکھتا ہےجسےاچھے فیصلوں پر منافع بخش اور مبہم پر منفی نتائج حاصل ہوتے رہے لیکن معیشت پر 50ہزار ارب روپےکے غیر ملکی قرضوں کا بوجھ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ ماضی میں بنائی جانے والی تجارتی پالیسیوں میں زیادہ تر غلطیوں کا عنصر کارفرما رہا اور چار برس میں ڈالر کی قیمت 123 سے آج 239 روپے پر جا پہنچی۔ اب سیلابوں کی تباہ کاریوں کے بعد حکومت کو ملکی معیشت کا ازسر نو جائزہ لینا اور آئندہ کےلئے ترجیحات کا تعین کرنا ہے۔ زراعت جو صنعت وتجارت کی بنیاد سمجھی جاتی ہے ،کی بحالی کیلئے آنے والی عالمی امداد کی منصفانہ تقسیم سے متاثرہ کاشتکاروں کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا موقع ملے گا اس کے ساتھ ہی ضروری ہے کہ ایسی پالیسیاں وضع کی جائیں جن سے ملک کا برآمدی شعبہ مکمل طو رپر فعال ہو اور زر مبادلہ کے آنے سے روپے کی قدر حتی الوسع بحال ہو سکے۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اگر معاشی نظم و ضبط قائم ہوجائے تو 22کروڑ کی آبادی کا یہ ملک بیرونی سرمایہ کاروں کی توجہ کا مرکز ثابت ہوگا۔