عمران خان سیاسی قبلہ درست کریں

September 27, 2022

عمران خان کی بطور سیاسی قائد موجود خوبیاں، بلاشبہ مسلمہ اور شہرہ آفاق ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ یہ ان کی اپنی ذاتی شخصیت اور کریکٹر کی عکاس ہیں، جن سے ان کے سیاسی کردار و اخلاق کے معیار کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ اس امیج کے ساتھ اب وہ عوام میں سب سے زیادہ مقبول ہیں

۔ سو وہی جاری و ساری اور بلند درجے کے سخت جان مسلط دو قانونی نظام کے حامل اسٹیٹس کو کے لئے واحد سیاسی اور بڑا موثر چیلنج ہیں۔ جسے اکھاڑ پھینکنے کے بنیادی مطلوب خواص ہماری موجود مجموعی قومی سیاسی قیادت میں سے ان ہی میں موجود ہیں۔

لیکن اسٹیٹس کو کے غلبے کا کمال ہے کہ خان اعظم کے اپنے گرے ایریاز (سیاسی کمزوریاں، خامیاں) ان کی بدرجہ اتم موجود سیاسی خوبیوں پر حاوی نہیں بھی ہیں تو انہوں نے عمران خان کی قابل قدر 25 سالہ سیاسی جدوجہد میں باآسانی مداخلت کرکے خان کے انداز سیاست کو ان کی بڑی بڑی اور مطلوب قومی سیاست کے لئے شدت سے درکار موجود پوٹنیشل اور ان کے گرے ایریا کا توازن سا پیدا کردیا ہے۔ ہونا تو ان کی اعلیٰ قائدانہ اور سیاسی خوبیوں کا غلبہ چاہیے تھا لیکن جس توازن کی نشاندہی ان سطور میں کی جا رہی ہے وہ اسٹیٹس کو کی عوام کے لئے ظالم اور بے رحم سیاست اور اب خان کی دشمن اول انداز سیاست سے کسی حد تک اسی انداز میں لڑتے بھڑتے بنا ہے۔

ناچیز کی ذاتی رائے ہے کہ عمران خان کی اپنی سیاست بھی ہماری گھمبیر اور پیچیدہ قومی سیاست میں ایک ’’منی اسٹیٹس کو‘‘ بن گئی ہے اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ عمران کے مخالف جملہ تمام سیاسی قائدین کا مقام و مرتبہ اور قومی و بین الاقوامی امیج خان کے مقابلے میں کم تر ہے جو اس امر کی تصدیق کرتا ہےکہ حصول اقتدارمیں کامیابی (جواسٹیٹس کو سیاست کے رنگ کی ملاوٹ سے ہی حاصل ہوئی تھی) اور اس کے بعد ان کی حکومت بھی بڑی خامیوں سے خالی نہ تھی۔

اس کا ایک مکمل بیباک اور سائنٹیفک تجزیہ لازم ہوگیا ہے، یوں کہ عمران خان کی جملہ مثبت و مطلوب سیاسی خوبیوں اور ان کی موجود اور مسلسل بڑھتی حقیقی عوامی مقبولیت اب بہرحال ایک قومی اثاثہ بن چکی ہے، جس سے ان کے اقتدار میں دوبارہ آنے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہمیں بحیثیت مملکت و قوم، ایسی ہی بااعتبار بنیادی مطلوب خوبیوں کی حامل جاندار سیاسی اپوزیشن (بطور مطلوب قومی سیاسی اثاثہ) کی بھی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کا موازنہ اس اعتبار سے کیا جائے کہ ہر دو میں مستقبل قریب کے امکانی سیاسی منظر میںکس میں اپنا کردار اپنی مین ڈیٹڈ حیثیت میں زیادہ بہتر ادا کرنے کی صلاحیت ہے تو یقیناً جملہ اور بڑی بڑی کمیوں کے باوجود، موجودہ صورتحال میں واضح طور پر پلہ پھر تحریک انصاف کا ہی بھاری ہے۔

یہ حیران کن سیاسی حقیقت مستقبل کے سیاسی منظر کی تشکیل نو میں بڑا اہم کردار ادا کرنے کی منتظر ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اکھاڑ کرشہباز حکومت اسٹیٹس کو کے کسی حد تک متروک غیر آئینی اور غیر جمہوری حربوں کو بحال کرکے عوام کے لئے جس سخت ناپسندیدہ دھندوں، گٹھ جوڑ اور بیرونی مداخلت کے یقینی مذمتی طریق سے اقتدار میں آئی اس نے واضح طور پر عمران خان کی بڑھتی غیر مقبولیت اور پی ڈی ایم کی آئندہ الیکشن میں کامیابی دونوں کے امکانی نتائج کو الٹا کر رکھ دیا ہے۔

یہ کردار پی ڈی ایم نے ادا کیا نہ عمومی بیانیے کے مطابق عمران اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک پیج پر نہ رہنے سے ایسا ہوا۔ اس سے بڑا مغالطہ ہی کوئی نہیں، صرف اور صرف یہ پاکستانی عوام (ایٹ لارج) ہیں جنہوں نے پی ڈی ایم کو ملک کی مکمل ناپسندیدہ اور سخت ناپسندیدہ حکومت اقتدار سنبھالتے ہی بنا دیا اور معزول وزیر اعظم کومقبولیت کی بلندیوں پر فائز کردیا۔

یہ ماننا پڑے گا اس تاریخی سنہری سیاسی موقع کو عمران خان نے اپنی گہری مایوسی کو ترک کرکے جس برجستگی اور ذہانت سے کیش کرایا، اس سے ان کی عوام میں اپنی پسندیدگی کو انتہائی کامیاب، ملک گیر عوامی رابطہ مہم میں تبدیل کرنے کی غیر معمولی صلاحیت پہلی مرتبہ عملی سیاست میں منکشف ہوئی،جس نے ثابت کیا کہ وہ ایک بڑے کامیاب پولیٹیکل انجینئر ہیں کہ اس کامیاب ترین قبل از وقت انتخابی مہم کے خالق وہ خالصتاً خود ہیں، جس کا موقع انہیں عوام نے کمال فراخدلی اور حیرت انگیز فوری ردعمل سے دیا نہ کہ تحریک انصاف کی تنظیم نے۔

ہمارے گھمبیر سیاسی و معاشی بحران میں عملی سیاست کے جو دائو پیچ اور اتار چڑھائو بڑی تیز رفتاری سے دھماکہ اور ہنگامہ خیر ماحول میں جاری ہیں اس میں خان صاحب کا ایک بڑا گرے ایریا پھر واضح ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تو درست ہے کہ ان کی مقبولیت و پذیرائی کا درجہ بہت بلند ہے لیکن اس میں قومی اور عوامی ضروریات کے حوالے سے جو توازن اور ترجیحات کا تعین شدت سے مطلوب ہے خان صاحب اس سے بے بہرہ دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنی سیاسی گاڑی عوام اور اپنی مقبولیت اور ذاتی اعتماد کے زور پر ہی چلا رہے ہیں۔’’لانگ مارچ‘‘ سے اسلام آباد کو بند کرکے محدود لنگڑی حکومت کو مزید معذور کرکے دبائو میں لانے سے سیاسی اہداف حاصل کرنا نظرثانی کا متقاضی ہے۔

وہ عوام جس نے آپ کو مقبولیت کے کوہ ہمالیہ پر چڑھایا اتنی بلندی سے ان کی وہ مجبوری و بے کسی کیوں نظر نہیں آ رہی جس میں آپ کے کثیر تعداد میں حامی عوام کے بقول امپورٹڈ حکومت نے بجلی و گیس کے ناقابل ادائیگی بلوں اور کنٹرول ایبل اشیائے خور و نوش کی ناقابل یقین قیمتوں میں ٹیکس ادائیگی سے بیزار صنعت کاروں اور تاجروں کو اضافے کی کھلی آزادی دے کر وہ اضافہ بھی کرد یاجو کسی صورت بھی جائز نہیں۔

اس کا اندازہ سرکاری نرخناموں اور بازار کے نرخوں میں تضاد سے واضح ہو رہا ہے۔ پھر پارٹی کی تنظیم اور اس کی کشید اور اپنی کور ٹیم کو بڑھانے اور مطلوب کیپسٹی کی حامل ٹیم کی تیاری، جو ایک بڑا تازہ اور یقینی قابل عمل قومی پروگرام ہی نہیں مرحلہ وار اس کا روڈ میپ دینے کی اہل ہو، یہ سب نظر انداز نہیں؟

جیسے گزشتہ انتخاب سے پہلے حکومت سنبھالنے اور اسے گڈگورننس کے ساتھ مینج کرنے کا کوئی ہوم ورک اور ایکشن پلان آپ کے پاس نہ تھا۔ خان صاحب اپنے اسٹیٹس کو کے ساتھ توازن کو ختم کرکے اپنی سیاست کا توازن اپنی مثبت صلاحیتوں اور عوامی و ملکی ضروریات سے قائم کریں۔ قارئین کرام! موضوع زیر بحث پر’’آئین نو‘‘ میں بات جاری رہے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)