سیلاب کے بعد کی حکمتِ عملی

October 01, 2022

سیلاب نے پاکستان میں 33 ملین سے زائد افراد کو متاثر کیا۔ ملک کا بہت بڑا حصہ سمندر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ انسانی جانیں بچانااس وقت سب سے بڑادرپیش مسئلہ ہے۔ غذائی قلت، ملیریا، ڈینگی، ہیپاٹائٹس اورہیضہ جیسی خطرناک بیماریوں سے فوری طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔ 40 ارب ڈالر مالیت کے گھر، سڑکیں، پل، مویشی، فصلیں اور املاک تباہ ہو چکی ہیں۔ ایسی ہولناک تباہی پاکستان نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ، سیلاب کے اثرات ابھی ختم نہیں ہوئے ابھی تو شروعات ہیں۔انفراسٹرکچر کے نقصانات کے ساتھ ساتھ معاشی خطرات بھی منڈلا رہے ہیں، برآمدات میں نمایاں کمی اوربے روزگاری میں اضافے کا خدشہ ہے۔ خوراک کی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتاہے ،پھر بیرونی ادائیگیوں پر نادہندگی کاسانپ بھی پھن پھیلائے سامنے ہے۔اگرچہ یہ پاکستان پر انتہائی مشکل وقت ہے لیکن اس میں بھی اتحاد و یگانگت کے کئی امکانات موجود ہیں، ایسے موقعوں پر ہی قومیں عظیم بنتی ہیں۔

اس سے پہلے کہ ہم ان عوامل پر غور کریں جو سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہیں سیلاب کی بنیادی وجوہات کو دیکھنا ضروری ہے۔ پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں کی نسبت اضافی بارش اور گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلائو کے باعث آنے والے اضافی پانی کو سٹور کرنے کے لیے پہلے سے کوئی پلاننگ یا انتظامات دیکھنے میں نہیں آئے۔ جھیلیں بھر گئیں، نہ واٹر شیڈ تھے نہ ڈیم ۔پانی ذخیرہ کرنے کی کوئی تکنیکی سہولت تک میسرنہ تھی،جس کی وجہ سے منہ زور پانی جہاں جہاں جاتا رہا تباہی پھیلاتا چلا گیا۔ترقی پذیر ممالک نے صنعت کاری اور کاربن کے اخراج کی بھاری قیمت ادا کرنا شروع کر دی ہے جس کا فائدہ صرف امیر قوموں کو ہوا ہے۔

لیکن گلوبل وارمنگ اس تباہی کی واحد وجہ نہیں ہے۔ پاکستان سیلاب سے نمٹنے اورآفات سے بچائو کے لیے مربوط نظام بنانے میں ناکام رہا ہے۔ 2010 کے سیلاب کے بعد کوئی حکمت عملی نہیں بنائی گئی،پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز تک نہیں بنائے گئے۔ آبپاشی کے تمام منصوبے بد عنوانی اور بد انتظامی کا شاہکار ثابت ہوئے ۔ ڈیموں کی تعمیر اور منصوبے فضول اور بے نتیجہ سیاسی بحثوں کا شکار ہوتے رہے جس کا خمیازہ پاکستانی عوام کئی دہائیوں سے بھگت رہے ہیں۔پاکستان اس وقت جنگ جیسی صورتحال سے دوچار ہے۔ ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ لوگ بیماریوں سے مر رہے ہیں، تعمیر نو کے لیے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ بہت جلد خوراک کے بحران کا اندیشہ ہے۔ اس وقت حکومت اور عوام کو اکٹھے ہونے کی ضرورت ہے۔ اس بحران سے حکومت تنہا نہیں نمٹ سکتی۔ کثیر الجہتی چیلنج کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام وسائل، ہنر، ذرائع اور حکمت عملی کو ایک ساتھ استعمال میں لانا اشد ضروری ہو گیا ہے۔

سب سے پہلی اور اہم بات پاکستان کو مالی معاملات میں آسودگی کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے پاکستان پہلے ہی عالمی بینک، اقوام متحدہ، آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے قرضوں، ادائیگیوں میں تاخیر اور امداد کے لیے رابطہ کر چکا ہے۔ اقوام متحدہ فنڈز اور امدادی سامان کی فراہمی کا انتظام کر رہا ہے۔ عالمی بینک نے بھی قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف کا اعلان کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور قطر جیسے دوست ممالک نے لیکویڈیٹی پوزیشن بڑھانے کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ یہ ادائیگیاں پاکستان کے ادائیگیوں کے توازن کو مستحکم بنائیں گی۔

پاکستان مختلف قسم کے بے شمار وسائل کا حامل ہے جن میں نوجوان افرادی قوت سرِ فہرست ہے۔ان وسائل کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے جیسا کہ زلزلے کے دنوں میں ہوا، حکومت کو نجی شعبے کے ساتھ اشتراک کرکے ایک جامع منصوبہ بندی کرنی چاہیے جس میں ملٹی نیشنل ، کارپوریٹ کمپنیوں اور بے روزگار نوجوانوں کو استعمال میں لایا جا سکے۔ اسے ''پاکستان رضاکار روزگار پلان'' کہا جا سکتا ہے جہاں طلباء اور بے روزگار نوجوانوں کو ہنگامی بنیادوں پر NAVTECاور TEVTA جیسے سرکاری اور نجی تربیتی اداروں کے ذریعے رضاکارانہ اور امدادی کاموں کی بنیادی تربیت فراہم کی جائے۔ تربیت کے بعد، ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنیوں کے ساتھ منسلک کیا جانا چاہیے جو اس موقع پر خطیر سرمایہ کاری کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان میں سے کئی تنظیمیں پہلے ہی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لےرہی ہیں صرف انہیں مربوط اور منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں امدادی سامان کے ساتھ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں ریسکیورز کے طور پر بھیجا جانا چاہیے۔ ان نوجوانوں میں سے ہی مارکیٹنگ اور سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے فنڈز اور امدادی سامان اکٹھا کرنے کے لیے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔پاکستان بھر میں پھیلی انجینئرنگ یونیورسٹیوں سے خصوصی ٹیمیں بنائی جا سکتی ہیں تاکہ ضلعی حکومتوں کے ساتھ مل کر سیلاب سے تباہ ہونے والے انفراسٹرکچر، چھوٹے مکانات، خیموں اور سہولیات کی تعمیر نو شروع کی جا سکے۔ اسی طرح، میڈیکل یونیورسٹیاں جامع پروگرام شروع کر سکتی ہیں جہاں زیر تربیت اور دستیاب ڈاکٹر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں طبی خدمات مہیا کرنے کے پابند ہوں۔ ان کی رہائش اور دیکھ بھال کا خرچ حکومت چیمبر آف کامرسز اور تجارتی تنظیموں پر ڈال سکتی ہے۔

اسی طرح، حکومت کو ایمنسٹی اسکیم متعارف کروا کے ٹیکس مراعات دینی چاہئیں۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے پاکستان کے بینکنگ سسٹم میں سرمایہ کاری آسان اور پرکشش بنائی جانی چاہیے تاکہ ڈالر کے لیکویڈیٹی بحران سے نکلنے اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لیے فنڈنگ کو یقینی بنایا جا سکے۔ ایف اے ٹی ایف کے اندازے کے مطابق پاکستانی شہریت رکھنے والوں کی ملکیت 1 ٹریلین ڈالر زسے زیادہ ہے۔ اس کے ایک بڑے حصے کو پاکستان واپس لانے کے لیے حکومت کو ایک ترغیبی منصوبہ بنانا چاہیے۔ متحدہ عرب امارات، برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا میں مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی قابلِ عمل اور آسان سہولیات مہیا کی جانی چاہئیں ۔ حکومت کو سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لیے کم لاگت کے مکانات کی تعمیر کے لیے تعمیراتی شعبے کے لیے مراعات کا بھی اعلان کرنا چاہیے، جس سے حکومت پر بوجھ کم ہو سکے۔ ترسیلات زر کے لیے مراعات سمیت درمیانے درجے کے ہنر مند کارکنوں کے لیے بیرون ملک ملازمتوں کے نئے منصوبوں کی ضرورت ہے تاکہ ترسیلات زر میں اضافہ ہو۔ اس سے زرِ مبادلہ ذخائر بڑھیں گے اور اگلے سال برآمدات میں ہونے والے نقصان کو کم کیا جا سکے گا۔

سیلاب زدہ علاقوں میں کام کرنے والی تمام این جی اوز کے لیے ایک مراعاتی اور امدادی پیکج ہونا چاہیے ، اس میں ملکی اور غیر ملکی کارپوریٹ اداروں کے سماجی ذمہ داری کے اقدامات کو بھی شریک کیا جانا چاہیے۔ حکومت سیلاب سے متاثرہ لوگوں میں امداد اور رقوم کی تقسیم میں شفافیت کو یقینی بنائے۔ سول، مسلح سیکیورٹی اور ریلیف ایجنسیوں کے تعاون سے منصوبوں پر بروقت عمل درآمد کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ یہ ایمرجنسی اور کام کرنے کا وقت ہے، ایسے وقت اور دباؤ میں کوئلہ ہیروں میں بدل جاتا ہے۔شاید یہی ہماری ضرورت بھی ہے۔

(مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)