یہ کھیل تماشا اور مذاق کب تک ؟

October 01, 2022

اگر کوئی انسان مہذب، با ضمیر یا با اصول ہو تو وہ انسانی و اخلاقی معیار سے گری ہوئی کوئی بات کرے گا نہ حرکت، اگر بھولے سے اس نوع کی کوئی لغزش ہو بھی جائے گی تو وہ شرمندگی سے معافی کا طلب گار ہو گا۔ اس کے برعکس بے اصول لوگ کبھی بھولے سے بھی اچھائی کر رہے ہونگے تو ان کے اندر بھی کوئی نہ کوئی غرض ضرور ہو گی ایسے لوگ ہمہ وقت اس تاک میں رہتے ہیں کہ کیسے اپنا مطلب نکالنا ہے۔بظاہر ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیں گے اندر خانے تلوے بھی چاٹیں گے ۔افسوس اپنے عوام کالا نعام پر ہے جو ان کی اصلیت پہچاننے میں ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں یا پیہم دھوکہ کھاتے ہیں ۔کسے معلوم نہیں کہ اس ملک میں دہائیوں سے ایک ایسا ہائبرڈ سسٹم نافذالعمل ہے جو مصنوعی نظریے، جھوٹے پروپیگنڈے اور اول و آخر مفاد و فراڈپر چل رہا ہے عوام جائیں بھاڑ میں انہیں تو اپنا الو سیدھا کرنا ہے ۔یہاں تین مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے والے قومی قائد کے خلاف اپنی مطلب براری کیلئے وہ گھنائونا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ جیسے سب سے بڑا قومی مجرم، چور اور ڈکیت وہی ہے، ایک کٹھ پتلی کو اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچا کر ، مصنوعی چالوں سے عوام پر مسلط کر دیا گیا لیکن ایک کٹھ پتلی اور سیاست دان کا فرق کب تک چھپایا جا سکتا تھا؟ اصلیت ایک نہ ایک روز واضح ہوکر رہتی ہے آج جیسے جیسے جھوٹے پروپیگنڈے کی دھول بیٹھ رہی ہے بہت سے حقائق واضح و آشکار ہو رہے ہیں ۔

آج اگر ہمارا انصافی معیار ایک سو سولہ درجے نیچے تک گرا پڑا ہے تو اس کے ذمہ داران پر بھی ایک نظر ڈالی جانی چاہئے اس گراوٹ میں جن پردہ نشینوں کی برسوں پر محیط محنت شامل تھی ان کا ادراک بھی تو ہونا چاہئے۔وہ جو پارسائی کا سمبل بنا کر بٹھایا گیا تھا اس کے کرتوت بھی وقت کے ساتھ سامنے آتے چلے جائیں گے اپنے پرنسپل سیکرٹری کو کس راز داری سے کہہ رہا ہے کہ ہم نے کسی کا نام نہیں لینا صرف کھیلنا ہے ،کس کے ساتھ کھیلنا ہےجناب نے ؟؟سفارتکار کی طرف سے ارسال کردہ سائفر کے ساتھ ؟ وزیرخارجہ و سیکرٹری خارجہ کےساتھ میٹنگ کرتے ہوئے اپنی مرضی کے منٹس بنا کر مرضی سے ڈرافٹ کر لیں گے تاکہ ریکارڈ پر آ جائے سیکرٹری خارجہ سے پڑھوا لیں گے تاکہ سیاسی سے زیادہ سفارتی لگے ۔کس پلاننگ کےساتھ جھوٹ گھڑا جا رہا ہے کیا اس کا نام سفارتکاری ہے ؟اور پھر اس کو بیرونی سازش کا نام دیا جا رہا ہے مجھے ہٹانے کیلئے امریکہ نے سازش کی اور یہ کہ امپورٹڈحکومت نا منظور وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہو جانے والا اپنے مفاد کیلئے اس حد تک جاسکتا ہے کہ اسے مملکت کے خارجہ تعلقات میں زہر گھولتے ہوئے بھی ذرا شرم محسوس نہ ہو ؟

درویش نے اہم شخصیت سے شکایت کی کہ کیسا خطرناک ہے یہ شخص جو آپ کے سائفر سے کھیل رہا ہے، ملک کی خارجہ پالیسی سے کھیل رہا ہے جواب ملا ’’بھائی کوئی ایسی چیز بتا دیں جس کے ساتھ موصوف نہیں کھیل رہے ‘‘ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی، آج امریکی سفیر بھی یہ کہہ رہا ہے کہ سازشی نظریات بدقسمتی ہیں ان میں کوئی صداقت نہیں سفارتی تعلقات میں کبھی اتفاق ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا سفارتی حساسیت کے اپنے تقاضے ہیں لیکن فرق تو پڑا ہے جنہیں نظر نہیں آیا وہ پچھلے سیلاب کی معاونت کا تقابل حالیہ سے کرلیں اور پھر زیادہ بولنے پر یہ کہہ دیا گیا کہ اپنی ہمسائیگی سے تعلقات و معاملات کو درست کریں یا ان کے پاس جائیں جن کی الفت کے دعویدار ہیں ۔اس سب کے باوجود بجائے ندامت کے موصوف نے فرمایا کہ سائفر لیک کرکے بہت اچھا کیا ہے ابھی تو میں اس پر کھیلا ہی نہیں اب کھیلوں گا یہ وہی ٹیون ہے جو تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے پر اختیار کی گئی تھی یا اللہ تیرا شکر ہے جو میرے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی ہے مجھے اس پر بہت خوشی ہو رہی ہے کیونکہ اب میں ان کا وہ حشر کرنے جا رہا ہوں جو ان کے گمان میں بھی نہیں ۔اس کے بعد آپ نے کس کس کا حشر کر دیا ہے؟؟

مسٹر ایکس وائی میرے خلاف سازشوں میں مصروف ہے میں عوامی سونامی لے کر اسلام آباد پر یلغار کروں گا تو پچیس کلو میٹر کی حکومت والے کو کہیں پناہ نہیں ملے گی وغیرہ وغیرہ کیا جی سی یو کے طلبا کو پوچھنا نہیں چاہئے تھا کہ انکل آپ ہمارے سامنے جو اتنی بڑی بڑی چھوڑ کر گئے ہیں جس امریکی سازشی بیانیے کی کہانیاں سناتے رہے ہیں کیا یہ ہمارے ساتھ مذاق نہیں تھا ؟ ان معصوموں کو کون بتائے کہ یہ شخص تو اپنے تمام تر قومی اداروں کے ساتھ مذاق کر رہا ہے اس بدنصیب ملک و قوم کے ساتھ سازشی کھیل کھیل رہا ہے بائیس کروڑ عوام کےساتھ پچھلی ربع صدی سے اس نوع کے کھیل تماشے کر رہا ہے مگر بہت ہو چکی اب بس کر دیں سیاست چھوڑ کر کرکٹ کے کوچ بن جائیں۔