سائفر کا کھیل۔۔۔عمران خان کا زوال

October 05, 2022

سائفر کہانی کے بعد وڈیو لیکس نے پاکستان کی سیاست میں زلزلہ برپا کر دیااور اس کے آفٹر شوکس نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔جس کے نتیجے میں عمران خان کے پیروکاروں کا اپنے قائد سے اعتبار ختم ہوتا محسوس ہو رہا ہے اور عوام کا سیاست اور سیاستدانوں سے یقین اٹھ رہا ہے۔۔لیکن عمران خان اپنے جھوٹ پر قائم ہیں کیونکہ جھوٹ ان کے سیاسی ایمان اور یقین کی اساس ہے۔

ابتدائی طور پر جھوٹ کو کوئی اور رنگ دینے کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت نے اپنی خفت مٹانے کے لئے طرح طرح کے جواز پیش کئے لیکن سائفر اور اس میں کئے جانے والے ردوبدل اور جعلسازی کی نفی کرنے اور اس کے لئے بولے جانے والے جھوٹ کو چھپانے میں ناکام رہے اور سائفر سے کھیل کر قوم کو بیوقوف بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اور عوام گمراہ ہونے سے بچ گئے۔

29 اور 30 ستمبر کو یکے بعد دیگرے منکشف کئے جانے والے دونوں آڈیو لیکس عمران خان کی سیاست کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہزیمت اٹھانے کے ساتھ ساتھ انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لئے امریکی سازش کا بیانیہ بینقاب ہو گیا۔ اسی آڈیو لیک میں عمران خان کا سائفر میں جعلسازی کے ذریعے ردوبدل کر کے اسے امریکہ کی جانب سے باقاعدہ دھمکی کے خط میں تبدیل کرنے کی سازش بھی سامنے آ گئی جس میں دو وفاقی وزراء شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کے علاوہ پرنسپل سیکرٹری اعظم خان شریک جرم تھے جنہوں نے خان صاحب کے حکم پر ایک جعلی میٹنگ کے منٹس تیار کر کے سیاسی کے بعد سائفر سے حکومتی سطح پر کھیلنے کی سازش کا بھی انکشاف ہوا اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے تمام منصوبے خاک میں مل گئے۔ جیسے ہی خان صاحب کو معاملے کی نزاکت کا احساس ہوا اور یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ ان سے ایسی غلطی سر زد ہو گئی ہے جسے درگزر نہیں کیا جا سکتا، ٹمپرڈ سائفر کی اصل کاپی غائب ہو گئی کیونکہ حکومت نے اس خود ساختہ خط کا فرانزک کرانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ تاہم خان صاحب کا اندازہ درست تھا کہ اس بار معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی کیونکہ اس بات کا اشارہ انہیں اسی وقت مل گیا تھا جب خان صاحب جج محترمہ زیبا چوہدری کی عدالت میں معافی مانگنے کےلئے بنفس نفیس پیش ہوئے لیکن جج صاحبہ عدالت میں موجود نہیں تھیں۔۔وہاں موجود وکلاء کا عندیہ تھا کہ عدلیہ نے اشارتأ یہ تاثر دیا ہے کہ مہذب معاشروں میں جج کی تضحیک ناقابل معافی جرم ہے جو چلتے پھرتے قبول نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لئے ایک طے شدہ طریقہ جسے اپنانا ضروری ہے۔

سرکاری حلقوں کا خیال ہے کہ اب یہ بھی عیاں ہے کہ "نیوٹرلز" اب نیوٹرل نہیں ہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ نے عالمی سطح پر ملک کی سبکی کرانے اور امریکہ کو عمران خان کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی سازش میں ملوث کرنے کے عمل کے پیچھے کارفرما عوامل اور اسباب کو بے نقاب کرنے کے لئے اعلی اختیاراتی ٹیم تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے اس ضمن میں وفاقی کابینہ کی منظوری سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA) حکام کو اس حساس معاملے کی تحقیفات کرنے کی ذمہ داری سونپتے ہوئے ہدائت کی ہے کہ ایف ۔ آئی ۔ اے کے سینیئر افسروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں جن میں آئی۔ایس۔آئی کے ماہرین بھی شامل ہیں، پر مشتمل ٹیم تشکیل دے اور تمام متنازعہ اور جواب طلب معاملات کی تحقیقات کرے جو دنیا میں بدنامی اور شرمندگی کا باعث بنے ہیں۔۔اس سلسلے میں سابق وزیراعظم عمران خان جو بظاہر مرکزی ملزم سمجھے جاتے ہیں، کے علاوہ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جنہوں نے مبینہ طور پر جعلسازی کے ڈرامہ کا بنیادی ڈھانچہ تیار کیا اور سابق وفاقی وزیر اسد عمر جو سائفر کو دھمکی کے خط میں تبدیل کرنے کی ہر مشاورتی اجلاس میں شامل رہے اور سب سے بڑھ کر عمران خان کو مبینہ طور پر جعلسازی کا راستہ پر ڈالنے والے ان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو مرکزی ملزموں کی حیثیت سے شامل تفتیش کیا جائے گا۔ ان کے علاوہ وزیراعظم ہاؤس اور وزارت خارجہ کے ان ملازمین کے خلاف تحقیفات کی جائیں گی جنہوں نے سرکاری اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے اس جعلسازی میں عمران خان، شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور اعظم خان کی معاونت کی۔۔ دوسری طرف حالات سے سمجھوتا اور اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کی بجائے عمران خان نے تصادم کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور تحقیقات کا عمل روکنے اور حکومت کو بلیک میل کرنے کی لئے ایک پھر لانگ مارچ کی کال یہ کہہ کر دی ہے کہ اب فیصلے سڑکوں پرہوں گے۔۔ لیکن اب اس بیانیہ کی گھن گرج کہ "کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا" کا زور بھی مدھم پڑ گیا ہے۔

تحریک انصاف میں شامل سنجیدہ سیاستدان اس مشکل وقت میں عجیب تذبذب اور مخمصے کا شکار ہیں کہ وہ ان دشوار حالات کا کیسے مقابلہ کریں اور کیسے راہ فرار اختیار کریں جس سے سیاسی زوال کی اس گھڑی سے بچ سکیں اور اپنی علاقائی سیاست کو بھی بچا سکیں کیونکہ تحریک انصاف مطلق العنانیت کے زیر اثر ہے اور کسی لیڈر کی یہ جرأت نہیں کہ وہ خان صاحب کی رائے سے اختلاف کرسکے یا ان کی خواہش کے خلاف کوئی مشورہ دے سکے۔ ان نام نہاد لیڈروں کا کام صرف خان صاحب کی بات سننا اور اس پر کوئی رائے قائم کئے بغیر من و عن عمل کرنا ہے۔۔یہ وہی لیڈر ہیں جو اپنے قائد کے حکم اور خواہش پر عوام کو گمراہ کر کے فوج اور عسکری قیادت کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگواتے تھے اور دوسری طرف قائد عمران خان آرمی چیف کے ساتھ صلاح کے لئے چھپ چھپ کر ملتے تھے۔ اس حرکت کو عام فہم الفاظ میں منافقت کہا جاتا ۔۔ عوام کی محبت اور عقیدت کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے والا وزارت عظمیٰ کا اہل نہیں ہو سکتا۔