Keep It Simple

October 06, 2022

انگریزی زبان میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے، کِیپ اٹ سمپل، جس کے معنی سہل زبان میں یہ ہیں کہ کسی غیر ضروری چالاکی سے پرہیز کریں،پیچاک سے بچیں،تفصیلات اور جزیات کی گرہوں سے دور رہیں، اور پھر دیکھیں معاملات کیسے آسان ہوتے ہیں۔بزرگ بھی ’ الدین یُسر‘ کی تعریف کرتے ہوئے اصول اور فروعات کا فرق کچھ اسی طرح سمجھایا کرتے ہیں۔ اسی طرح قومی زندگی آسان بنانے کا بھی ایک سادہ حل موجود ہے، آپ اسے ’Back to Basics ‘ کہہ سکتے ہیں، کل کیا ہو نے والا ہے؟ کی اُدھیڑ بُن سے نکلنے کا آزمودہ نسخہ جو ہر مہذب قوم نے کامیابی سے اختیار کر رکھا ہے، اور ہم نے ابتدا سے پسِ پشت ڈال رکھا ہے، سو اپنی زبوں حالی پہ حیرت کیسی، گردِ راہ سے اٹی ہوئی ایک بے سمت قوم ہے اور نوحہ گروں کی منڈلیاں۔ سب ادارے اور افراد اپنے اپنے آئینی منطقوں میں لوٹ جائیں، اپنے اپنے حلف پر عمل کریں، کتنا سادہ حل ہے، جس معاہدے پر ہم سب نے دستخط کئے ہیں اس کی پاسداری کریں، کتنی آسان بات ہے، لیکن جون بھائی نے غالباً ہمارے لیے ہی کہا تھا، ’’کوئی مجھ تک پہنچ نہیں پاتا، اتنا آسان ہے پتا میرا۔‘‘

آئین کے تحت ہم پارلیمانی جمہوریت ہیں، یعنی پارلیمنٹ ہماراسب سے محترم اورطاقت ور ادارہ ہے، جب کہ واقفانِ حال جانتے ہیں کہ پچھلے چار سال پارلیمنٹ کو ایک اٹھارہ گریڈ کا باوردی ملازم چلاتا رہا، عمران خان بھی کہتے ہیں کہ کوئی بل پاس کرانا ہوتا تھا، یا کسی ممبر کی حاضری اسمبلی میں یقینی بنانا ہوتی تھی، تو ایجنسیاں ہی پی ٹی آئی کیلئے یہ ـ’ملی فریضہ‘ انجام دیتی تھیں۔ بس اسی ایک مثال سے پوری بات سمجھ آجاتی ہے، یہ ہے آئین کے تقدس کی مختصر کہانی ایک ـ’جمہوری‘ دور میں۔اب فقط انشراحِ صدر کیلئے ایک نظر نئے آرمی چیف کی تقرری پر بھی ڈال لیجیے۔ بات ذرا پیچھے سے شروع کرنا چاہوں گا۔ ہر ملک میں ایک Warrant of Precedence جاری کیا جاتا ہے (حکمِ تقدم) یعنی سادہ لفظوں میں پروٹو کول کی ترتیب، جس سے ریاست کے سول اور ملٹری عہدیداران کی تقابلی حیثیت کا تعین کیا جاتا ہے، اور اسی پروٹوکول فہرست کے تحت ان حضرات کو حکومتی تقریبات میں نشستیں دی جاتی ہیں۔ پاکستان میں جب 1950میں وزارت داخلہ نے پہلا حکم تقدم جاری کیا تو اس میں سپہ سالار کی کیٹیگری نمبر 15تھی، 1970 میں وہ کیٹیگری نمبر چھ تک چڑھ آیا تھا، اور آج بھی اسی نمبر پر براجمان ہے۔ اس پروٹوکول کو کسی سویلین حکمران نے شاید ہی کبھی بدلنے کی کوشش کی ہو۔ اور یاد رہے کہ چیف کے کیٹیگری نمبر چھ میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ریاستِ پاکستان کے حفظِ مراتب کے اعتبار سے چیف آف آرمی اسٹاف تقریباً ایک سو افراد کے بعد آتے ہیں، یعنی سرکاری مرتبے کی رُو سے ان سے اوپر جو عہدیدار آتے ہیں ان میں تمام وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، اسپیشل اسسٹنٹس ٹو پرائم منسٹرز، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی، تمام صوبائی گورنرز اور وزرائے اعلیٰ، حتیٰ کہ ایمبیسیڈرز ایٹ لارج بھی شامل ہیں۔ بے شک یہ نمائش سراب کی سی ہے۔ آئینِ پاکستان سے وارنٹ آف پریسی ڈینس تک، لکھا کچھ ہے، ہو کچھ رہا ہے، دریا میں ہے سراب کہ دریا سراب میں، ہم خود کو دھوکا دے کر خود کو چالاک سمجھ رہے ہیں، حماقت کی انتہا غالباً اسی کو کہا جائیگا۔

سرکاری کاغذوں میں حفظِ مراتب کے اعتبار سے تقریباً سوویں نمبر کے ایک صاحب کی تعیناتی نے پورے ملک کو لگ بھگ پچھلے ایک سال سے گرداب میں لپیٹ رکھا ہے، ہر طرف ہو رہی ہے یہی گفتگو، عوام کو بھی فوج کی سینیارٹی لسٹ ازبر ہو چکی ہے، آدھے درجن جرنیلوں کے نام اور سنیارٹی تو خوانچہ فروشوں کو بھی یاد ہیں، ایک دوست ابھی کچھ دیر پہلے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے تیرہویں نمبر پر براجمان جنرل صاحب کا ذکرِ خیر کر رہے تھے، حتیٰ کہ حکومتیں بھی اسی تعیناتی کے پس منظر میں آ جا رہی ہیں، سیاست بھی اس محور پر گھوم رہی ہے، جماعتوں کے اپنے اپنے فیورٹس ہیں، بلکہ یہ ساری بحث ہی سابق وزیرِ اعظم اور ان کے فیورٹ سے شروع ہوئی تھی، سوشل میڈیا پر اپنے اپنے امیدواروں کے حق میں کیمپینز چلائی جا رہی ہیں، منظر کچھ یوں ہے گویا سپہ سالار کا الیکشن ہونے جا رہا ہے۔اور اب جس لانگ مارچ کی دھمکی خان صاحب دے رہے ہیں اس کا تعلق بھی براہ راست نومبر کی تعیناتی سے بتایا جاتا ہے، کیوں کہ یہ بات خان صاحب کو سمجھا دی گئی ہے کہ فوری الیکشن ممکن نہیں ہیں، اور اگر فوری انتخاب نہیں تو پھر لانگ مارچ کا ایجنڈا کیا ہے؟ اب اس منظر کو ذرا اوپر سے دیکھیے،اس حکومت کے وجود میں آنے کی سب سے بڑی غایت نیا سپہ سالار لگانا بتائی جا تی ہے، عمران خان اپنی مرضی کا چیف لگانے کے شوق میں اپنی حکومت گنوا بیٹھے، اور اسی شوقینی میں اب اپنی سیاست دائو پر لگانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔

دوسری طرف سپہ سالار ملکی سیاست سے یک سر بے نیاز ہو کرامریکا کے دورے پر ہیں، ملاقاتیں کر رہے ہیں، جاتے جاتے بھی پاکستان کے استحکام کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ الطاف گوہر اپنی کتاب ’ایوب خان‘ میں لکھتے ہیں کہ فروری 1959 میں انتخاب ہونے جا رہے تھے، اور ایوب خان اپریل 1958میں امریکا کے دورے پر چلے گئے جہاں انہوں نے امریکی حکومت کو قائل کر لیا کہ انتخاب کے نتیجے میں امریکا مخالف حکومت قائم ہو جائے گی اور نتیجتاً امریکا ایوبی مارشل لا کی حمایت پر آمادہ ہو گیا۔ الحمداللہ، جنرل قمر باجوہ ایوب خان سے یک سر مختلف آدمی ہیں، مارشل لا تو کجا وہ تو ایکسٹینشن بھی نہیں لینا چاہتے۔