انکل سام، پاکستان کی گوشمالی کر رہا ہے

October 22, 2022

18برس قبل پاکستان کیلئے ایٹم بم بنانے پر ڈاکٹر قدیر خان کو لکھ کر کچھ دیا جاتا ہے، حکم ہوتا ہے ’’ من و عن ٹی وی پر پڑھیں‘‘۔ ان کا یہ حکم ماننا بھی ایجنسیوں کو اچھا نہیں لگا۔ پھر ان کے گھر سےنکلنے پر پابندی ایسے عائد کی گئی کہ جو راستہ ان کے گھر کی طرف جاتا تھا وہاں پولیس کھڑی رہتی۔ آنے والوں کو آگے جانے کا حکم دیا جاتا۔ ڈاکٹر صاحب کی موت کے بعد، ہمیں کبھی کبھی نواز شریف یہ کہہ کریاد دلاتے تھےکہ سب کے منع کرنے کے باوجود قومی حمیت کے پیش نظر ایٹمی دھماکہ ، ہندوستان کے دھماکے کے جواب میں کیا گیا۔ ن لیگ سال کے سال اس کارنامےکو یاد کرتی ہے اور ہر نئی حکومت دنیا بھر کو یہ باور کراتی رہتی کہ پاکستان کا ایٹم بم محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ یہ کبھی نہیں بتایا کہ اس تجربے کے وسیلے سے پاکستان میں کون سے عوامی اور معاشی فلاح کے منصوبے شروع کیے گئے کہ ہم دنیا کو بتائیں کہ ایٹم برائے امن یوں استعمال ہوتا ہے۔ ہم نے قوموں کو ڈرانے کیلئے ہاتھی تو اپنے دروازے پر کھڑا کر لیا۔ اسے کھلانے اور قوم کی بھوک مٹانے کو اپنے پاس کوئی سرمایہ نہ تھا۔ پرانےزمانے کا محاورہ یاد آگیا’’ گھر میں نہیں دانے، اماں چلی بھنانے‘‘۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی سے لے کر ملک کے ماہرین معیشت نے بار بار کہا کہ اس دھماکے کی جگہ ہزاروں اسکول ہسپتال اور صحت کے مراکز بن جاتے ،کہنے والے تو بہت کچھ کہتے رہے ہیں۔ انہی آوازوں کی بازگشت امریکی صدرنے بھی سن لی۔ وہ آج کل بہت بولنے لگے ہیں۔ اپنے ملک میں تو بڑھتی ہوئی نسلی نفرتیں روک نہیں سکے۔ وہ مسلسل یوکرین میں اسلحہ اور فوج بھیجے جا رہے ہیں۔ ا س پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا۔ ہم نےجواباً دھمکی دینےکو امریکی سفیر کے ہاتھ میں اسی طرح احتجاج نامہ پکڑا دیا جیسے کہ آئے دن ہم انڈین سفیر کو بلا کر احتجاج نامہ پکڑا کر فائل کا پیٹ بھرتے رہتے ہیں۔

منٹو صاحب نےتو امریکا کے ایسے رنگ ڈھنگ نہیں دیکھے تھے، اس کے باوجود اس ذہین شخص نے انکل سام کے نام پر خطوط میں امریکہ کے دوغلے پن کو عیاں کیا،ہم سمجھتے ہوئے بھی ڈالروں کی بارش میں فریب مسلسل میں مبتلا رہے۔ خود کو یقین دلاتے رہے کہ اگرپاکستان کی علیحدگی کے وقت امریکی بحری بیڑہ ہماری مدد کو نہ پہنچا کہ ’’خون صدہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا‘‘۔آج تک سیاست کے تمام مہرے جانتے تھے کہ ان کو یہاں تک پہنچانے میں اندرون ملک اور بیرون ملک ، کون سی قوتیں ڈوریاں ہلاتی رہی ہیں۔ ہم وکیلوں کی تحریک نہیں سمجھے کہ پیچھے کون سی قوتیں اپنا ’’لچ‘‘ تل رہی ہیں۔ اور اب تو اپنے ہی ملک میں اعتزاز احسن کو بہ خوبی سمجھنے والے بھی جوبائیڈن کی طرح بول اٹھے ہیں۔ اتنے زخم کھانے کے باوجود ہم عمران خان کی ہڑبڑا ہٹ کو حقیقت مان بیٹھے تھے۔ ایران کو ایٹمی دوڑ سے روکنے کی تنبیہ کرنے والے امریکہ نے کبھی اسرائیل کو نہیں ٹوکا۔ انڈیا کو کسی بھی دراز دستی پر نہ کچھ کہا بلکہ مودی نے اپنےسات سالہ دوغلے پن کو سلامت رکھتے ہوئے امریکی صدر کو بھی جپھی ڈالی تھی۔

ہم نے امریکہ کو کبھی اپنا دشمن نہ سمجھا نہ کہا۔ وہ ایبٹ آباد میں گھس کر رات کے دو بجے ہمیں سوتا چھوڑ کر اسامہ کو لے اڑا۔ امریکہ جانتاہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔ ڈالر نے اس ملک کی اشرافیہ کو اپنا مرید بنایا ہوا ہے۔

ہم تو اپنے ملک کے اندر دیکھیں کہ ساری دنیا ملتان میں نشتر اسپتال کی چھت پرملنے والی نامعلوم لاشوں کو سڑتے ہوئے کسی ڈاکٹر یا افسر نے نہیں ، کسی صحافی نے یہ خبر نکالی تو ابھی تفتیش یہاں تک پہنچی ہے کہ پتہ کیا جائے یہ کسی دشمنی کانتیجہ تو نہیں۔ ایسے ہی ابہام کو لے کر کوئی کمیشن بن جائے گا۔ بات آئی گئی ہو جائے گی۔ جیسے ہر روز سینکڑوں کلو منشیات پکڑی جاتی ہیں۔ ان کا کیا ہوتا ہے کیا پکڑنےوالےخود سوداگر ہو جاتےہیں کہ یہ سیلابِ بلا جاتا کدھر ہے؟

چلیں اب ذرا برطانیہ سے کچھ سیکھیں کہ وہاں بڑی عمر کے تنہا رہ جانے والے لوگوں کے لئے باقاعدہ وزارت موجود ہے کہ جاپان سے لے کر ہمارے ملکوں میں اولادیں کبھی بیرون ملک اور کبھی ملک میں ہی اپنا الگ گھر بنا کر مطمئن رہتی ہیں بلکہ یورپ میں تو چھٹی کے دن سب اولاد دوپہر کے کھانے پہ آجاتی ہےمگر کھانا پکانے سے لے کر بعد میں برتن سمیٹنے میں سب اولاد مدد کرتی ہے۔ ہمارے یہاں بیٹیاں تو بوڑھے ماں باپ کی نہ صرف خبر گیری کرتی ہیں بلکہ کھانا بنا کر لاتی ہیں۔ بہوئیں بس بازار سے کچھ اٹھا لاتی ہیں۔ مغرب میں بھی بہوئیں اکثر بیچ پر آرام کرنے کو چلی جاتی ہیں۔ یورپ اور انگلینڈ میں وزارتوں کے ذریعے ہر علاقے کے اکیلےرہ جانے والے بزرگوں کے لئے ہر علاقے کی سطح پر رضا کار گروپ مقرر کیے جاتے ہیں جو اپنے علاقےکے بوڑھوں کو غسل دینےسے دوائی اور خوراک،سب چیزوں کا ہفتہ وار اہتمام کرتے ہیں۔ہفتے میں ایک دن، بزرگوں کو پکنک پر لے جایاجاتا ہے۔ چین میں تو بزرگوں کو ایک بڑے میدان میں لے جایا جاتا ہے۔ ورزش کروائی جاتی ہے۔ ہر طرح کی انڈور گیمز کھیلنے کے لئے کبھی لوگ خود گروپ بنا لیتے ہیں اورکبھی یہ رضا کاروں کی ترغیب سے بنتے ہیں۔ ہمارے ملک میں امیر ہو کہ غریب اکیلے رہ جانے والے میاں بیوی ہوں تو پھر بھی پنشن کے سہارے اپنا رہن سہن کر لیتےہیں۔ جب کبھی میں سرکار کی طرف سے اعلان سنتی ہوں کہ پنشن کی حد، ترقیاتی فنڈ سے بڑھ گئی ہےتو ڈر جاتی ہوں۔ سرکار بوڑھے لوگوں کی پنشن پر بھی حرف زنی کرتی ہے۔ ملک میں اگر بوڑھے زیادہ ہوگئے ہیں تو ان کی نگہداشت ریاست کا فرض ہوتی ہے کہ وہ سرکار کی نوکری میں بڑھاپے کی حد پر پہنچے ہیں۔ آخر میں بیت المال اور سوشل ویلفیئر والے کسی خصوصی دن پر، ان بوڑھوں کی تنہائی کی کہانی ٹی وی پر سنانے بیٹھ جاتے ہیں۔ عمران اور شہباز دونوں 70 برس کے ہو گئے ہیں۔ ذرا سوچیں۔