اساتذہ قوم کے معمار ....!

October 23, 2022

5 اکتوبر کو دنیا بھر میں اساتذہ کا عالمی دن منایا گیا، یہ دن دنیا بھر میں اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے۔اس دن جہاں معاشرے کی تعمیر و کردار سازی میں اساتذہ کے اہم کردار کو اجاگر کیا جاتا ہے وہیں اُن کے بلند مرتبے اور عزت و وقار کو بھی نمایاں کیا جاتا ہے۔ساتھ ساتھ یہ دن اساتذہ کے حقوق اور ذمہ داریوں،نظام تدریس،بھرتی، روزگار اور تدریسی حالات کیلئے معیارات کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔

قارئین کرام! فاتح عالم سکندر کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ ایک بار سکندراعظم اپنے استاد محترم ارسطو کے ساتھ گھنے جنگلات سے گزر رہا تھا کہ اچانک راستے میں ایک نالہ آگیاجس میں برسات کی وجہ سے طغیانی آئی ہوئی تھی، اب نالے سے ایک شخص پہلے اور ایک بعد میں گزر سکتا تھا لہٰذا استاد اور شاگرد میں پہلے نالہ پار کرنے پر بحث شروع ہو گئی۔سکندر پہلے نالہ پار کرنے پر بضد تھا بالآخر ارسطو نے بحث کے بعد سکندر کو پہلے نالہ عبور کرنے کی اجازت دے دی یوں سکندر نے پہلے اور ارسطو نے بعد میں نالہ عبور کیا،نالہ عبور کرتے ہی ارسطو نے سکندر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، کیا تم نے پہلے نالہ عبور کرتے ہوئے میری بے عزتی نہیں کی؟ سکندر نے بڑے احترام سے جواب دیا،نہیں استاد محترم، ایسا بالکل نہیں ہے، میں نے تو صرف اپنا فرض ادا کیا ہے کیونکہ اگر ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندر تیار ہو سکتے ہیں لیکن سکندر ایک بھی ارسطو تیار نہیں کر سکتا ۔ اشفاق احمد اپنی سوانح حیات میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ اٹلی میں میرا ٹریفک چالان ہو گیا اور بہت زیادہ مصروفیات کی وجہ سے چالان ادا نہیں کر سکا جس وجہ سے کورٹ جانا پڑا۔جج کے سامنے پیش ہوا تو جج نے وجہ پوچھی، میں نے کہا پروفیسر ہوں مصروفیات زیادہ تھیں ابھی میں نے اتنی بات ہی کی تھی کہ جج نے اونچی آواز میں کہاA Teacher is in the Court۔یہ لفظ سنتے ہی تمام لوگ کھڑے ہو گئے اور مجھ سے معافی مانگی اور میرا چالان منسوخ کر دیا۔ اشفاق احمد آگے لکھتے ہیں کہ مجھے اْس روز قوم کی ترقی کا راز معلوم ہوگیا۔

دنیا بھر میں استاد کا احترام کیا جاتا ہے لیکن ایک سروے کے مطابق چائنہ واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ احترام استاد کا کیا جاتا ہے، ہمارے وطن پاکستان میں بھی استاد کا احترام کیا جاتا ہے لیکن اس حد تک نہیں جتنا استاد شاگرد کو محبت دیتا ہے۔ موجودہ دور میں تو اکثراسکولوں اور کالجوں میں تعلیم تجارت بن چکی ہے۔ درس گاہیں تجارت کی منڈیوں میں تبدیل ہوچکی ہیں، جس کی وجہ سے یقیناً ’’استاد‘‘ جیسی عظیم ہستی کی قدر ومنزلت بھی کم ہو کر رہ گئی ہے۔ آج کل اسکولوں میں اساتذہ کے ساتھ بدتمیزی اور بے ادبی کے واقعات روز رونما ہورہے ہیں۔ ایک طرف معاشرے میں بالخصوص درس گاہوں میں تدریس کے گھٹتے ہوئے معیار کو بلند کرنے کی ضرورت ہے، وہیں طلباء کے دلوں میں اساتذہ کی عظمت و اہمیت کو راسخ کرنے کی ضرورت بھی ہے۔

ابن انشاء لکھتے ہیں کہ ایک بارمیں جاپان میں ایک یونیورسٹی میں مہمان خصوصی تھا جب فنکشن ختم ہوا تو میں وہاں کے استاد کے ساتھ ٹہلتا ہوا گاڑی کی طرف جا رہا تھا، راستے میں میَں اور وہ ایک جگہ کھڑے ہوکر باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں ہم نے دیکھا کہ دو بچے ہمارے پاس سے کود کود کے گزررہے تھے۔میں نے پوچھا کہ بچے کود کود کر کیوں گزررہے ہیں تو استاد نے بتایا کہ دراصل ہم دونوں جہاں کھڑے ہیں ،ہمارا سایہ زمین پر پڑ رہا ہے تو یہ اس سے بچ کر کود رہے ہیں کہ ہم اس سائے کے اوپر سے نہ گزریں ۔یہ تھی استاد کی عزت جاپان میں۔آئیے دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں استاد کی کیا عزت ہے ہم ان پر لاٹھی چارج کرتے ہیں یعنی ہم اساتذہ کو وہ احترام نہیں دیتے جس کے وہ مستحق ہیں، جاپان میں 8سال تک کی عمر کے بچوں کو صرف تربیت سکھائی جاتی ہے۔تعلیم اس کے بعد شروع کی جاتی ہے ۔معلوم ہو ا کہ تربیت ضروری ہے تعلیم کی نسبت اور تعلیم ضروری ہے تربیت کے بعد ،ا س کے برعکس پاکستان میں بچے کو دوسال کی عمر سے ہی تعلیم کی طرف راغب کیا جاتا ہے ،جب کہ تربیت کرنے کیلئے والدین دور رہتے ہیں اور جا کر چھوٹے چھوٹے اسکولوں میں داخل کر دیتے ہیں تاکہ وہ تعلیم کے علاوہ تربیت بھی ان سکولوں سے حاصل کریں ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ بچے تربیت یافتہ نہیں رہے۔

دوسری جانب اس وقت پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی پولیٹکل پولرائزیشن اب عدم برداشت کی صورت ہم سب کے گھروں اور نجی تعلقات میں آ گھسی ہے،سیاسی تفریق اب دلوں میں فاصلے پیدا کرنے لگی ہے جب کہ سیاست بنیادی طور پر انسانوں کے روزمرہ مسائل حل کرنے اور انہیں قریب لانے کا نام ہے۔ ایسی سیاست جو نفرتیں پیدا کرے، دوریاں لے آئے وہ کچھ بھی ہوسیاست نہیں ہو سکتی۔آپس میں گفتگو کا معیار اس قدر گر چکا ہے کہ باہمی احترام نام کی کوئی چیز اب باقی نہیں رہی، ایسے ایسے سنجیدہ احباب کی زباں بگڑتے دیکھی کہ حیرت اور رنج کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ بیسیوں دوست احباب ایک دوسرے کو سوشل میڈیا پر انفرینڈ کر چکے ہیں، گھریلو تعلقات بھی باہمی تفریق اور بے ادبی کی صورتحال سے دو چارہیں۔ کیا یہ مناسب ہے کہ ہم ایک ایسی صورتحال کی وجہ سے آپس میں بدظن ہوں جس میں براہِ راست ہمارا کوئی ہاتھ بھی نہیں۔ہمیں اپنے جیسے عام انسانوں کی زندگیوں کو سہل بنانا اور ان کو ہنستا بستا دیکھنا چاہئے،دین کے بتائے راستے کو اپنائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ لیڈروں کی وجہ سے دین اور ایمان ہاتھ سے گنوا بیٹھیں۔ حق اور باطل میں فرق سمجھیں، کسی پر اپنی بات نہ تھوپیں اور سنی سنائی باتوں کو پھیلانے سے پرہیز کریں اور پہلے تحقیق کریں۔ اللّٰہ پاک اس پاک وطن اور اس ملک سے محبت کرنے والوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔اللّٰہ تعالیٰ ہمیں ہدایت عطا فرمائے۔آمین

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)