ملک ایسے ہی ترقی نہیں کرتے

November 25, 2022

ہمارے ارد گرد ملکوں نے تیزی سے ترقی کی، ہم پورے خطے میں سب سے پیچھے رہ گئے، ہمارے معاشی حالات ناقابل بیان حد تک خراب ہیں اور ہمارے حکمراں لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ ہمارے ہاں حکومتی اور سرکاری عہدوں پر بیٹھے لوگ سچ کیوں نہیں بولتے۔ ہم اس بات کا اقرار کیوں نہیں کرتے کہ ہمارے ہاں نظام کی رگوں میںکرپشن کا زہر گھول دیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں حکومتی اور سرکاری عہدوں پر بیٹھے لوگ کھلے دل سے کرپشن کرتے ہیں اور اب تو انہوں نے قانون سازی کرکے کرپشن کو تقریباً جائز ہی کرلیا ہے، آپ 49 کروڑ کی کرپشن کریں اور موجیں کریں یا پھر جتنی مرضی کرپشن کریں اور اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ناموں پر جائیدادیں بنائیں، آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔

میں نے ارد گرد کے ملکوں پر غور کیا کہ آخر وہ کیوں آگے نکل گئے؟ اس کیوں کے جواب میں مجھے پانچ چھ جواب ملے۔ مثلاً ان ملکوں میں حکومتی عہدوں پر کام کرنے والے خود کو کرپشن سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، ان ملکوں میں سرکاری اور نیم سرکاری عہدوں پر براجمان لوگ کرپشن کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، ان ملکوں میں طاقتور لوگ مختلف عہدوںپر اپنے خاندان کے لوگوں کو مسلط نہیں کرواتے، ان ملکوں میں انصاف کابول بالا ہے، ان ملکوں میں عوام کی پروا کی جاتی ہے اور پھر ان ملکوں میں کہیں نہ کہیں میرٹ کو زندہ رکھا گیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں نظام بالکل الٹ ہے، ملک ایسے ہی ترقی نہیں کرتے، یہ سمجھنے کے لئے یہ واقعہ پڑھئےپھر آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ کسی ملک کے آگے جانے میں کون سی سوچ کارفرما ہوتی ہے۔ واقعہ پیش خدمت ہے۔

نوے برس کے بوڑھے کی جیب خالی تھی ،اس نے مالک مکان کو پانچ ماہ سے کرایہ بھی نہیں دیا تھا، اس لئے مکان کے مالک کو بوڑھے پر بہت غصہ تھا، پھر وہ مرحلہ آیا کہ مالک مکان نے بوڑھے آدمی کا سامان گھر سے باہر پھینک دیا۔ بزرگ کے پاس مختصر سا تو سامان تھا، ایک چارپائی ، پلاسٹک کی ایک بالٹی اور دو چار پرانے برتن۔ بھارت کے شہر احمد آباد کے عام سے محلے میں جب بوڑھے کا سامان باہر پھینکا گیا تو بوڑھا بے بسی کی تصویر بن کر فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا۔ محلے کے لوگ مالک مکان کےپاس گئے کہ وہ بوڑھے آدمی کو رہنے کی اجازت دے دے کیونکہ اس کا کوئی والی وارث نہیں، وہ کہیں سے ادھار پکڑ کر کرایہ بھی ادا کر دے گا۔ ابھی یہ بحث جاری تھی کہ ایک اخباری رپورٹر کا گزر ہوا، اس نے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے بوڑھے کی تصاویر بنائیں ابھی وہ تصاویر بنا رہا تھا کہ مالک مکان لوگوں کے کہنے پر بوڑھے آدمی کو دو ماہ مزید رکھنے کے لئے تیار ہوگیا مگر رپورٹر کے پاس اسٹوری تھی کہ احمد آباد میں ایک بوڑھے آدمی کےساتھ ایسا سلوک کیوں ہوا۔ رپورٹر دفتر گیا، اس نے تصاویر اپنے ایڈیٹر کے سامنے رکھیں، ابھی اس نے اسٹوری بیان کرناتھی کہ ایڈیٹر تصویریں دیکھ کر چونک اٹھا، ایڈیٹر نے اپنے رپورٹر سے پوچھا کہ تم اس بوڑھے آدمی کو جانتے ہوکہ یہ کون ہے؟رپورٹر کہنے لگا ...’’ایڈیٹر صاحب! اس بڈھے میں کونسی خوبی ہے کہ کوئی اس پر توجہ دے، اسے تو محلے والے بھی نہیں جانتے، یہ ایک وقت کا کھانا کھاتا ہے، اپنے برتن خود دھوتا ہے، گھر کی صفائی خود کرتا ہے، اس بے چارے کو کس نے جاننا ہے.‘‘ رپورٹر کی بات سن کر ایڈیٹر نےسنجیدگی سے کہا کہ ...’’یہ جس کی تصویریں تم لائے ہو، یہ عام آدمی نہیں ہے، یہ شخص دو مرتبہ ہندوستان کا وزیر اعظم رہا، اس کا نام گلزاری لال نندہ ہے...‘‘رپورٹر اپنی کم علمی پر حیران ہوا، اسے مزید حیرت ایک سابق وزیر اعظم کی بدحالی پر ہوئی ۔ خیر اگلے دن خبر شائع ہوئی تو ہر طرف شور مچ گیا۔ گلزاری لال کی مفلسی سے وزیر اعظم سمیت بڑے بڑے عہدیدار آگاہ ہوگئے، صبح سویرے ریاست کا وزیر اعلیٰ، وزرا اور چیف سیکرٹری سمیت محلے میں پہنچ گیا، سب نے گلزاری لال کے سامنے ہاتھ جوڑے اور کہا کہ ہم آپ کو سرکاری رہائش گاہ دیتے ہیں، سرکار آپ کے لئے وظیفہ بھی مقرر کردیتی ہے، آپ اس معمولی سے مکان کو چھوڑ دیں۔ گلزاری لال نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ...’’میرا کسی سرکاری سہولت پر کوئی حق نہیں...‘‘ اس دوران گلزاری لال کے رشتے دار آ گئے، انہوں نے منت سماجت کی، رشتے دار بڑی مشکل سے یہ بات منوانے میں کامیاب ہوئے کہ گلزاری لال پانچ سو روپے مہینہ وظیفہ قبول کرلیا کرے گا۔ اس معمولی مکان کے مالک کو جب یہ پتہ چلا کہ اس کا کرایہ دار تو ملک کا وزیر اعظم رہ چکا ہے، اس نے گلزاری لال کے پاؤں پکڑ لئے، کہنے لگا مجھے بالکل معلوم نہیں تھا، آپ بتا تو دیتے۔ بوڑھے گلزاری لال نے جواب دیا کہ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ کون ہے بلکہ وہ تو ایک معمولی سا کرایہ دار ہےبس۔ گلزاری لال جب تک زندہ رہا، اسی مکان میں رہا اور مرتے دم تک پانچ سو روپے میںگزارا کرتا رہا۔

احمد آباد میںننانوے برس کی عمر میں فوت ہونے والا گلزاری لال 1898ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہواتھا، وہ ایف سی کالج لاہور سے اقتصادیات کی تعلیم لے کر ممبئی اور احمد آباد کی یونیورسٹیوں میں پڑھاتا رہا، سیاست میں آیا تو وزیرخارجہ بنا۔ 1964ء میں نہرو کے انتقال کے بعد وزیراعظم بنا پھر 1966ء میں لال بہادر شاستری کے بعد وزیراعظم بنا۔ دو مرتبہ ہندوستان کا وزیر اعظم رہنے والا گلزاری لال متعدد مرتبہ لوک سبھا کا ممبر بنا۔ انتقال کے وقت اس کا ذاتی گھر اور بینک بیلنس تک نہیں تھا۔

جو ملک آگے بڑھتے ہیں وہاں گلزاری لال جیسے کردار کہیں نہ کہیں کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا آدمی قومی اسمبلی کا ممبر تو کیا کونسلر نہیں بن سکتا۔ بس پروین شاکر کا شعر سن لیجئے کہ ؎

جانے کب تک تری تصویر نگاہوں میں رہی

ہوگئی رات ترے عکس کو تکتے تکتے