صوفی ازم اور ہمارا سماج؟

November 26, 2022

مذہب بنیادی طور پراخلاقی تربیت اور روحانی بالیدگی کا نام ہے جو انسانوں کو صبر، حوصلہ اورایثار کرنا سکھاتا ہے، دنیاوی مفادات سے اوپر اٹھا کرانسان کو اخلاقی بلندی کے اس مقام پر لے جانا چاہتاہے جس میں نفسا نفسی، لالچ، بغض، حسد، غیبت، بہتان، انتقام، دشمنی اور منافرت جیسی برائیاں نہ ہوں، عدل سے بھی آگے بڑھ کر مقامِ احسان تک یعنی آپ کا جو حق بنتا بھی ہے، صلۂ رحمی، انسان نوازی اور جذبۂ احسان و مروت و اپنائیت کے تحت بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے کو عطا کریں اور خود پیچھے ہٹ جائیں، سادگی، عاجزی، انکساری، حلیمی اور درویشی کے اوصافِ حمیدہ اپنے اندر پیدا کرتے ہوئے انسانیت سے بے لوث محبت کی طرف گامزن ہوں، یہی وہ نگاہ ِفقر ہے جس کے سامنے شانِ سکندری سرنگوں ہو جاتی ہے، یہی معرفت عظمتِ انسانی ہے، فرشتے جس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں، یہی سوزوگداز انسانیت کا جوہر ہے، جس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ ’’متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی، مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی‘‘۔ یا یہ کہ ’’الٰہی کیسے ہوتے ہیں جنہیں ہے بندگی خواہش ...ہمیں تو شرم دامن گیر ہوتی ہے خدا ہوتے‘‘ یہ ذہنی و قلبی واردات جب براستہ تصوف و درویشی آگے بڑھتی ہے تو وحدت الوجود کی منزل تک پہنچ جاتی ہے جس میں ہوس و مفاد پرستی کیلئے سوئی کے ناکے جیسی جگہ بھی نہیں بچتی۔ نگہ پیدا کر اے غافل تجلی، عین فطرت ہے کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا، یہیں پہ ملائیت اور صوفی ایک دوسرے سے اپنی راہیں جدا کرتے ہیں، ایک طرف ظاہر پرست ہے۔ دوسری طرف ان تنگنائوں اور مفاد پرستیوں سے اوپر اٹھ جانے والا سادھو، درویش، بندگانِ خدا سے محبت کرنے والا وہ فطرت شناس حق پرست ہے جو واعظ سے مخاطب ہوتا ہے ۔ بٹھا کے عرش پہ رکھا ہے تو نے اے واعظ خدا، وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے۔ مولانا روم فرماتے ہیں کہ جو اصل ثمرات و مغزیات تھے وہ ہم نے لے لئے ہیں جب کہ ظاہری کچرا یا چھلکے ہم نے ظاہر پرستوں کیلئے چھوڑ دیئے ہیں۔ دنیا کے ہر چھوٹے بڑے جھوٹے سچے مذہب میں حاوی طبقہ لفظی یا نمائشی بندشوں کا اسیر ہوتا ہے، جنہیں منوانے کے لئے وہ اپنی بساط سے بھی بڑھ کر ہر حد سے گزر جانے کے لئے تیار وآمادہ رہتا ہے جب کہ ان دو چہروں میں سے ایک وہ ہے جو اعلیٰ ترین بلکہ مثالی انسانی اخلاقیات کا منبع ہے جو تہذیب و شائستگی، قربانی اور انسان نوازی کی تعلیمات دیتا ہے۔ خدا کے عاشق ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے ،میں اس کا بندہ بنوں گا، جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا ۔ انسانی برادری کیلئے جواس آفاقی روشنی پر ایمان رکھتے ہیں کہ کعبے میں بت کدے میں ہے، یکساں تری ضیاء میں امتیاز دیر و حرم میں پھنسا ہوا جیسے کہ عظیم ملامتی صوفی بابا بلھے شاہ سرکار فرماتے ہیں کہ کسی بھی انسان کا دل نہیں توڑنا، یعنی انسان، انسانی زندگی اور انسانوں کی خوشی مقدس عبادت گاہوں سے بھی زیادہ مقدس اور پاکیزہ ہے۔ دنیا کے ہر مذہب میں اس انسانی اپروچ کے علمبردار، دانشور موجود ہیں، یہ اخلاقی بالیدگی، تصوف و صوفی ازم کے پرچارک ہیں۔ درویش کی ڈاکٹر جاوید اقبال سے اس موضوع پر بھرپور بحث ہوئی کہ مختلف مذاہب کی خصوصیات کیا ہیں؟ ہمارا مذہب ان سے کیونکر مختلف ہے؟ اس کی گرپ ہنوز کیوں مضبوط ہے اورلوگ مذہب میں پناہ لینے پر کیوں مجبور ہوتے ہیں؟ مذہب کی بقا کس چیز سے جڑی ہوئی ہے؟ اس بات پراتفاق ہوا کہ مذہب بالآخرصوفی ازم یا تصوف کی صورت باقی رہ جائے گا اوردیگر اپروچیں تاریخ کا مقدس حصہ بن جائیں گی ، وجہ اس کی شعور اور سائنس کی بڑھتی ہوئی طاقت یا اس کا چیلنج ہے۔