فوجی کمان کی تبدیلی

December 01, 2022

دنیا کی چھٹی سب سے بڑی فوج کے 16؍ویں سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے آرمی کمان کی علامت سمجھی جانے والی ’’ملاکا‘‘ چھڑی اُن کے حوالے کی اور اعزازی شمشیر یافتہ جنرل سید عاصم منیر اس عظیم فوج کے 17؍ویں سربراہ بن گئے جس سے نہ صرف پاکستانی عوام انتہائی محبت کرتے ہیں بلکہ جسے متعدد صلاحیتوں اور کارکردگیوں کی بنیاد پر عالمی برادری میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ منگل 29؍نومبر کو جی ایچ کیو راولپنڈی سے متصل ہاکی اسٹیڈیم میں منعقدہ پروقار تقریب میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا، مسلح افواج کے سربراہان، سینئر حاضر سروس و ریٹائرڈ افسران اور ان کے اہل خانہ، غیر ملکی سفرا، وفاقی وزرا، وفاقی سیکرٹریز اور پی ٹی آئی سمیت سیاسی پارٹیوں کے اہم ارکان نے شرکت کی۔ سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا اپنے الوداعی خطاب میں کہنا تھا کہ وہ فوجی کمان ایک مایہ ناز اور قابل افسر کے حوالے کر کے جا رہے ہیں۔ انہوں نے پاک فوج پر فخر کا اظہار کیا جو کم وسائل کے باوجود سیاچن سے لیکر صحرا تک سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے۔ لسانیت، رنگ و نسل اور مذہب کی تفریق سے بالاتر ہو کر ملک کے چپے چپے کا دفاع کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چھ سالہ دور میں لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی ہو یا مختلف علاقوں میں دہشت گردی، امن و امان کے چینلجز ہوں یا قدرتی آفات کا مقابلہ،’’ فوج نے ہمیشہ میری آواز پر لبیک کہا اور جہاں میں نے پسینہ مانگا، انہوں نے مجھے خون دیا۔‘‘ ہماری سپاہ کی قدر ہمارے دوست اور دشمن دونوں کرتے ہیں۔ سبکدوش ہونے والے سپہ سالار نے یقین کا اظہار کیا کہ جنرل عاصم کی قیادت میں پاک فوج نئی منازل عبور کرے گی۔ فوجی کمان میں تبدیلی عسکری اداروں کی معمول کی روایات کا حصہ ہوتی ہےاور دنیا بھر میں اسی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر وطن عزیز کی تاریخ کے بعض واقعات اور پچھلے برسوں اور مہینوں کی بعض کیفیات کے حوالے سے اس بار فوج میں ہونے والی کلیدی تبدیلی کے اعلان و انعقاد کے سب منتظر تھے۔منگل کے روز کمان کی تبدیلی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے جنرل عاصم منیر کو فون کر کے عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ جنرل عاصم کی قیادت میں آرمی کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور دفاع وطن کی صلاحیت میں مزید اضافہ ہوگا۔ دیگر سیاسی حلقوں کی طرف سے بھی نئی عسکری قیادت سے اچھی توقعات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ خصوصاً سابقہ آرمی چیف کے بیان کے بموجب پچھلے برس فروری میں سیاست میں عدم مداخلت کے فیصلے کے تناظر میں توقع کی جا رہی ہے کہ فوج سمیت تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر ملک کی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کرتے رہیں گے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگرچہ دفاعی نمائش آئیڈیاز میں شرکت کرنے والے دفاعی امور کے ماہرین نے حربی آلات کی خود کفالت میں پاکستان کی صلاحیت و پیشقدمی کو سراہا ہے مگر ملکی معیشت کی صورتحال کو تسلی بخش کہنا آسان نہیں۔ افغان سرحد سے کئے گئے بعض حملوں، دہشت گردی کے واقعات اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے جنگ بندی ختم کرنے کے اعلان سمیت کئی چیلنج درپیش ہیں جن سے تدبر، دور اندیشی اور پیشہ ورانہ مہارت سے عہدہ برآ ہونا ہے۔ سیاسی میدان میں ایک فریق پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کرنے اور دوسرا فریق ہر قیمت پر تحلیل روکنے کے اعلانات کرتا نظر آ رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ پچھلے چند دن کے دوران سیاسی فضا کی ہیجانی کیفیت میں جو کمی محسوس ہوئی وہ دیگر امور میں بھی نظر آئے اور سیاسی پارٹیاں مل بیٹھ کر اپنے مسائل سیاسی انداز میں حل کرلیں۔