کتابوں اور مصنّفوں کے درمیان دو اتوار

December 04, 2022

آج اتوار ہے۔ بیٹے بیٹیوں۔ پوتے پوتیوں نواسوں نواسیوں سے ملنے اور ڈھیر ساری باتیں کرنے کا دن۔ میں اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیشہ شکر بجا لاتا ہوں کہ مجھے تواتر سے اتوار خاندان تحریک چلانے کی توفیق دی۔ بہت سے خاندان اس کی مقدور بھر کوشش کررہے ہیں۔ ہفتے میں ایک دن اپنی اولادوں کے لیے نکال رہے ہیں۔ گھر پر ہی ملتے ہیں یا کسی تفریحی مقام پر لے جاتے ہیں۔ بلوچستان۔ پنجاب، جنوبی پنجاب، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان۔ آزاد جموں و کشمیر۔ سندھ۔ سے فون بھی آتے ہیں۔ پیغامات بھی ۔ وہ میرا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ میں مشترکہ خاندان کی اہمیت کا احساس دلاتا رہتا ہوں۔ اس بہت ہی بے ہنگم کاروباری معاشرے میں جب معاشی حالات نے ہر چھوٹے بڑے کو مجبورِ محض بنادیا ہے۔ رشتے کمزور ہورہے ہیں۔ باپ اپنی بیٹیوں اور ان کی ماں کا گلا کاٹ کر خود اپنی جان بھی لے رہا ہے۔ میں تو یہ بھی عرض کرتا رہا ہوں کہ دوپہر کا کھانا۔ یا برنچ(ناشتہ اور ظہرانہ) اپنے اہل خانہ کے ساتھ کریں۔ عصر کے بعد محلّے داری کے لیے وقت نکالیں، اگر کوئی مشکلات میں ہے وہ دور کریں۔ چولہے ٹھنڈے ہیں۔ ان کے گرم کرنے میں معاونت کریں۔ بیماری ہے تو اس کے علاج میں ہاتھ بٹائیں۔ یہ ہمارا دینی فریضہ ہے۔

کراچی میں تو آج کا اتوار۔ اور اگلے اتوار۔ حرف و دانش کی محفلوں میں گزریں گے۔ ان دنوں شہر قائد میں رونقیں ہی رونقیں ہیں۔ ملک بھرسے بلکہ دنیا کے گوشے گوشے سے زبان و بیان۔ شعر و ادب کے عشاق۔ اور معشوقائیں کراچی کے نئے پرانے گلی کوچوں میں نظر آرہے ہیں۔ پشاور ملتان۔ حیدر آباد اورشہروں شہروں سے ردیفیں قافیے۔ پیرایے۔ استعارے، تشبیہیں۔ تلمیحات آئی ہوئی ہیں۔ یہ سب لکھنے اور پڑھنے والوں کی دید۔ مصافحوں۔ معانقوں۔ دوچار بولوں کے مخاطب بنے ہوئے ہیں۔ اس کاروباری۔ سوشل میڈیا۔ نفسا نفسی۔ کارپوریٹ کے دَور میں بہت سے ایسے نوجوان بیٹے بیٹیاں ہیں جو افسانہ نگاروں۔ شاعروں۔ نقادوں کو ایک جھلک دیکھ کر ایسے مطمئن ہوجاتے ہیں جیسے انہیں کوئی خزانہ مل گیا ہو۔ ان میں سے اکثر نے ان محترم ہستیوں کو ان کی تحریروں کے ذریعے جانا ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ان کے قریب محسوس کرتے ہیں۔ ان کے تراشے ہوئے کرداروں سے خود کو مماثل سمجھتے ہیں۔ پندرہویں عالمی اُردو کانفرنس نے چار دن خوب روشنی بانٹی ہے۔

مجھے تو ان نوجوانوں کی آنکھوں میں چمک دیکھ کر اپنے مستقبل کے محفوظ اور روشن ہونے کا یقین ہوجاتا ہے۔ ان میں سے بہت سے مجھ سے کہیں زیادہ پڑھے لکھے ہیں۔ یہ ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں۔ عالمی اُردو کانفرنس ان کے دم سے ہی کامیاب ہوتی ہے۔ اہلِ قلم تو منتظمین کی سرپرستی میں رہتے ہیں۔ ان کے ٹکٹ پر آتے ہیں۔ ان کے سجائے دسترخوان پہ بیٹھتے ہیں۔ لیکن یہ مداحین صبح کراچی۔ حیدر آباد۔ ٹھٹھہ۔ حب۔ بیلہ کے کسی گھر سے نکلتے ہیں۔ پورا دن یہیں گزارتے ہیں۔ اپنے خرچ پر۔ کتابیں رسالے بھی خریدتے ہیں۔ لکھنے والوں سے محبت کا اظہار کرکے ان کی عمر بھی بڑھاتے ہیں۔ احمد شاہ اور ان کے رفقاء کار اس عالمی اُردو کانفرنس کی تیاریاں کئی ماہ پہلے سے شروع کردیتے ہیں۔ اس میں صرف اُردو ہی نہیں۔ سندھی۔ سرائیکی۔ بلوچی۔ پشتو۔ کشمیری۔ بلتی۔ براہوی ہر زبان کے ادب پر محفلیں برپا ہوتی ہیں۔ میں تو پرانا آدمی ہوں۔ ادبی فیسٹیول کا یہ نیا نشستی تمدن صرف نشستند و گفتند و برخاستند زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ وہ جو رسم تھی کہ مقالے بہت تحقیق کے ساتھ لکھے جاتے تھے۔ وقت کی تنگی کے پیش نظر ان کے خلاصے کانفرنس میں پیش کئے جاتے تھے۔ بعد میں پورے مقالے کانفرنس کی کتابی شکل کی رپورٹ میں پیش کیے جاتے تھے۔ پھر سال بھر وہ موضوع سخن بنے رہتے تھے۔ لکھنا پڑھنا پیغمبری کام ہے۔ اب بولنے کی صدی آگئی ہے۔ ٹی وی چینل چنگھاڑ رہے ہیں۔ حکمراں چیخ رہے ہیں۔ اپوزیشن بھی لب کھول رہی ہے۔ یہاں میلوں میں نقاد صرف کلیدی خطبے میں لکھتے پڑھتے ہیں۔ دیگر نشستوں میں صرف بولا جاتا ہے۔ فون پر اب پیغاما ت بھی لکھنے کی بجائے بول کر دیے جاتے ہیں۔ ہم لکھنے سے دور ہورہے ہیں۔ہم شکر گزار ہیں ان سب ہستیوں کے جو شہر شہر ادب میلے منعقد کررہی ہیں۔ ادب و شعر۔ تحقیق۔ تنقید۔ کی گفتگو تو ہورہی ہے۔ میڈیا کسی حد تک رپورٹ بھی کررہا ہے۔ بہت سے شرکا سوشل میڈیا پر اپنے طور پر اپنے مشاہدات مختصر یا تفصیل سے تحریر بھی کررہے ہیں۔ اس سے ان نشستوں کی روداد پورے پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مداحین ادب تک پہنچ رہی ہے۔ ادب سے شغف زندہ ہورہا ہے۔ شاعروں کی نئی نسلیں تو بہت ابھر رہی ہیں۔ غزل میں بھی نظم میں بھی اور نثری نظمیں بھی۔ اب مشاعروں کے ساتھ ساتھ مناظمے بھی ہورہے ہیں۔ جہاں نظمیں پیش کی جاتی ہیں۔ تنقید کا معیار بہتر نہیں ہورہا ہے۔

پاکستان اس وقت سیاسی، سماجی، عمرانی اور اقتصادی طور پر بہت ہی خطرناک حالات سے گزر رہا ہے۔ تدبر، ادراک، فہم، سب تشدد اور عسکریت کا شکار ہیں۔ ایسے میں ادب فیسٹیول۔ کتاب میلے یقینا ایک خوبصورت گریز کاکردار ادا کرتے ہیں۔ نئی نسل کے بحر کی موجوں کو اضطراب سے آشنا کرتے ہیں۔ اگلا اتوار کتابوں کے درمیان گزرے گا۔ یہ بھی کراچی کا ایک پانچ روزہ تہوار ہوتا ہے۔ جس میں کتاب فروش خالی ہاتھ آتے ہیں۔ جھولیاں بھر کر کتابیں لے جاتے ہیں۔ اب باقاعدہ یہ ایک سالانہ رسم بن گئی ہے کہ بہت سے محققین۔ افسانہ نگار۔ شاعر۔ سفر نامہ نویس۔ کتاب میلے کے لیے اپنی نئی کتاب تیار کرتے ہیں۔ میلے کا ہر لمحہ اس مایوسی کو باطل قرار دیتا ہے۔ جو ہم میں سے اکثر کتاب پڑھنے اور خریدنے کے بارے میں سال بھر کرتے رہتے ہیں۔ ایکسپو سینٹر میں یہ میلہ 8سے 12دسمبر تک سج رہا ہے۔ انگریزی اُردو سندھی اور دوسری زبانوں کے پبلشر یہاں اپنی دکانیں کھولتے ہیں۔ کتابیں الماریوں۔ شیلفوں سے نکل کر اپنے عشاق کی منتظر ہوتی ہیں۔ لاکھوں کتابیں اپنے اپنے گھر کی ہوجاتی ہیں۔ دلہنوں کی طرح بنی۔سجی۔ سرورق کے زیور میں لپٹی لیاری جارہی ہوتی ہیں۔ ڈیفنس۔ گلستان جوہر۔ ملیر۔ لانڈھی۔ کورنگی۔ ٹھٹھہ۔ حیدر آباد۔ آفریں ہے عزیز خالد۔ اویس جمیل۔ متین قادر۔ اقبال صالح اور دوسرے منتظمین ناشرین پر جو قوم کی علمی۔ ادبی تربیت کا اہتمام کرتے ہیں اور ان ناشرین کو بھی سلام جو بہت مہنگے اسٹال لیتے ہیں۔ اور پیاسوں کی پیاس بجھاتے ہیں ۔ آج آپ سے کانفرنس میں اوراگلے ہفتے کتاب میلے میں ملاقات رہے گی۔