ہمارے زمانے کا اسکول کیسا تھا

December 04, 2022

میں کریسنٹ ماڈل اسکول میں پڑھا ہوں، اُس کا شمار لاہور کے بہترین اسکولوں میں ہوا کرتا تھا، اسکول کی عمارت بہت شاندار تھی ، وسیع و عریض میدان تھے، کشادہ کلاس روم تھے ، کمپیوٹر لیب اور سائنس لیبارٹریاں تھیں۔جتنی ہمارے اسکول کی پارکنگ تھی اتنی جگہ میں آج کل یہ بڑے بڑے انگریزی اسکول سما جائیں، جبکہ فیس اِن اسکولوں کی اس قدر زیادہ ہے کہ اچھا خاصا کھاتا پیتا بندہ بھی مشکل سے ہی بھرنے کے قابل ہوتاہے ۔ جس کریسنٹ ماڈل اسکول کی میں بات کر رہا ہوں وہ اسکول اپنے پورے کرو فر کے باوجود نہایت مناسب فیس وصول کرتا تھا جس کا آج کل کوئی تصور ہی نہیں ۔ ہمارے اسکول کا آڈیٹوریم ،جس میں روزانہ اسمبلی ہوا کرتی تھی ،اتنا بڑا تھا کہ اُس حجم کا ہال شاید اب پاکستان کے کسی نئے اسکول میں نہ ہو۔ اور اسمبلی کا احوال بھی سن لیں ۔ اسمبلی کی شروعات تلاوت کلام پاک سے ہواکرتی تھیں،کسی کسی دن حمد یا نعت بھی پڑھی جاتی تھی،اُس کے بعد اسلامیات کے استاد ریاض صاحب کسی آیت یا حدیث کی تشریح کرتے تھے اور ایک مختصر سا لیکچر اخلاقیات پر دیتے تھے ،پھر کوئی طالب علم انگریزی یا اردو میں خبریں پڑھتا تھا، کبھی کبھار پرنسپل صاحب یا ہیڈ ماسٹر صاحب بھی گفتگو کیا کرتے تھے اور طلبا کو کسی’ اہم معاملے پر اعتماد میں لیتے تھے‘ اور پھر اسمبلی کا سیشن قومی ترانے کے ساتھ اختتام پذیر ہوتا تھا۔ جمعے کے روز قومی ترانے سے پہلے تمام طلبا ’چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا ‘ بھی گایا کرتے تھے اور غالباًاسی دن قومی پرچم بھی لہرایا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں نتائج کا اعلان بھی اسمبلی میں سب کے سامنے کیا جاتا تھا اور کسی بچے کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی تھی ، آج کل اگر کسی بچے سے پوچھو کہ تمہاری جماعت میں دوستوں کے کتنے نمبر آئے ہیں تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ ’پاپا یہ ہم کسی سے نہیں پوچھ سکتے۔‘اور میرا جواب ہوتا ہے ’لاحول ولا قوۃ۔‘ہمارے اسکول کا سالانہ اسپورٹس میلہ تو ایسے کمال کی تقریب ہوتی تھی کہ ہمیں لگتا تھا جیسے یہ اولمپک کے مقابلے ہیں، کوئی تیراکی میں تمغہ جیتتا تھا تو کوئی دوڑ میں، رنگا رنگا پی ٹی ہوتی تھی، ریلے ریس ہوتی تھی ، ہاکی اور کرکٹ کے میچ ہوتے تھے ، کرکٹ کا میدان ایسا تھا کہ وہاں بلا مبالغہ بین الاقوامی میچ منعقد کروایا جا سکتا تھا ، بائیس گز کی پچ ہوتی تھی جس پر ہم بالنگ کیا کرتے تھے اور ہمارے اسپورٹس کے استاد ایمپائر کے فرائض انجام دیتے تھے ۔ ہاکی کا میدا ن بھی ایسا ہی تھا ، اِس کے علاوہ باسکٹ بال کورٹ اور جمنازیم بھی تھا، جمنازیم کے ساتھ دو بہترین سوئمنگ پول تھے جہاں ہر ہفتے باقاعدگی سے سوئمنگ سکھائی جاتی تھی ۔میں نے جتنی خصوصیات کریسنٹ ماڈل اسکول کی گنوائی ہیں ، میرا نہیں خیال کہ آج کل کے کسی مہنگے سے مہنگے اسکول میں بھی یہ تمام خصوصیات موجود ہوں گی، آج کل کے اسکول توکیا کالج بھی چار کنال میں کھل جاتے ہیں ، جبکہ ہمارا اسکول شہر کے وسط میں کئی ایکڑوں پر پھیلا ہوا تھا ۔

اب کچھ بات اساتذہ کی بھی ہوجائے ۔ ایک ایک استاد سونے میں تولنے کے لائق تھا ، اُن کی شخصیت کا اچھا خاصا رعب ہواکرتا تھا ،ویسے تو ہمارے اسکول کے طلبا بھی کم نہیں تھے، ہم بھی انہیں خاصا ’ٹف ٹائم‘ دیتے تھے لیکن اِس کے باوجود اُن اساتذہ کا آج کل کے نوجوان لڑکے لڑکیوں سے کوئی موازنہ نہیں جو والدین کو ’کسٹمر ‘ سمجھ کراُن کے آگے بچھے چلے جاتے ہیں۔والدین کی بات چھوڑیں یہ بیچارے ٹیچر تو بچوں کے بارے میں بات کریں تو جمع کا صیغہ لگاکر یوں ادب سے بات کرتے ہیں کہ لگتا ہے جیسے وہ بچے کے استاد نہیں بلکہ اُس کے باپ کے کارخانے میں ملازم ہیں۔’حارث بہت قابل ہیں بس اُن کا فوکس پڑھائی میں کم ہے،انہیں چاہیے کہ اپنی لکھائی بہتر کریں، اُن میں بہت قابلیت ہے۔‘جبکہ ہمارے اساتذہ طلبا کو اپنے بچوں کی طرح پڑھاتے بھی تھے اور کبھی کبھار مار سے کام بھی لیا کرتے ہیں ۔یقینا ً میں یہاں بچوں کو مارنے کی حمایت نہیں کررہا مگر جس جدید انداز میں آج کل بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے اُس کا دفاع کرنا ممکن نہیں ۔ ہمارے اساتذہ کی اپنے مضمون پر گرفت بہت مضبوط تھی ،اُن کے سمجھانے کا طریقہ ایسا تھاکہ کسی بچے کو ٹیوشن رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی ، کم ازکم میں نے اپنے اسکول کے زمانے میں کبھی ٹیوشن نہیں پڑھی جبکہ آج کل حال یہ ہے کہ آپ چاہے اسکول کی ماہانہ پچاس ہزار فیس ہی کیوں نہ بھر رہے ہوں ،بچے کو پھر بھی ہر مضمون کی علیحدہ ٹیوشن ضرور رکھوانی پڑتی ہے ۔اصل میں یہ اسکول نہیں بلکہ برینڈڈ اسٹورز ہیں جہاں ہم اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں تاکہ یہ ٹھپہ لگ سکے کہ ہمارا بچہ فلاں برینڈ کے اسکول میں پڑھتا ہے ۔ اِن مہنگے اسکولوں میں صرف ایک بات پر توجہ دی جاتی ہے اور وہ ہے انگریزی ، اِس کے علاوہ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں جو اِن اسکولوں کو ہمارے زمانے کے اسکولوں سے ممتاز کرتی ہو۔

اب تک کی باتوں سے کچھ لوگ یقیناً یہ سمجھیں گے کہ ہر شخص کو چونکہ اپنا زمانہ ہی بہتر لگتا ہے اِس لیے مجھے بھی آج ناسٹلجیا کا دورہ پڑاہے جس کی وجہ سے مجھے اپنے اسکول کی ہر بات یاد آرہی ہے۔یہ بات کسی حد تک درست ہے ،ہوسکتا ہے کہ اُس زمانے میں ہمار ے بزرگ بھی یہی کہتےہوں جو آج میں اپنے زمانے کے بارے میں کہہ رہا ہوں مگر اِس کے باوجود یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جو زوال ہماری آنکھوں کے سامنے گزشتہ بیس تیس برسوں میں آیا ہے اُس کی نظیر ڈھونڈنا مشکل ہے ۔آج کل کےزمانے میں چونکہ والدین کے پاس وقت نہیں ہے اِس لیے وہ اپنے بچوں کو اِن مہنگے اسکولوں میں داخل کرواکے اور اُن کی بھاری فیس بھر کے خود کو تسلی دیتے ہیں کہ ہم نے محبت کا حق ادا کردیاجبکہ محبت ،چاہے اولاد سے ہو، بیوی سے یا محبوبہ سے، اسے ثابت کرنے کے لیے پہاڑ کھود کرنہر نکالنے جیسی مشقت کرنی پڑتی ہے۔یہ مشکل کام چونکہ اب ہم سے نہیں ہوتا اِس لیے ہم نے اِس کام کو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے حوالے کردیا ہے اورہم اُس کمپنی کی فیس بھر کے خود کو فرہاد جیسا عاشق سمجھنے لگ گئے ہیں ۔ حالانکہ’’ یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے .... اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جاناہے ۔‘‘

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)