تباہ حال معیشت اور ہمارے سیاست داں

December 04, 2022

میں سخت حیران اور پریشان ہوں کہ تمام سیاست دانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ پوری قوم کو تگنی کا ناچ نچایا ہوا ہے ،ہر طرف شطرنج کی سیاسی بازیاں آزمائی جا رہی ہیں ۔پہلے آرمی چیف کی تبدیلی کی آڑ میں میڈیا میں اس کو ہوابنایا ہوا تھا ،ہر صبح آرمی چیف کی ریٹائر منٹ کی تاریخ کو گو ل مول انداز میں گھمایا جا رہا تھا ۔باوجود اس کےکہ قمر جاوید باجوہ صاحب نے کہہ دیاتھاکہ وہ مزید توسیع نہیں چاہتے مگر پھر بھی سیاستدانوں کے دونوںدھڑے بلاوجہ توسیع کا راگ الاپتے رہے ۔جوں جوں 29نومبر قریب آرہی تھی دھڑکنیں تیز ہوتی جا رہی تھیں۔وزیر اعظم شہباز شریف اچانک لندن اپنے بڑے بھائی سے صلا ح مشورے کیلئے پہنچ گئے ۔پھر وزیر اعظم کو کوویڈ ہو گا ،پی ٹی آئی دھمکیوں پر اتر آئی ۔ادھر پھر مارچ شروع کر دیا گیا ،عوام کو مختلف شہروں میں پہنچنےکے پیغامات دے دئیے گئے ۔پی ڈی ایم کی جماعتیں بھی ڈٹ گئیں وہ سب لاہور میں سر جوڑ کر بیٹھ گئیں اور اعلان کیا کل تک نام بھجوادیں ہم تیار ہیں۔ 26نومبر کو عمران خان نے پنڈی دھرنے کا اعلان کر کے سب کو پہنچے کے لئے کہہ دیا ،اسلام آباد اور راولپنڈی کو کنٹینرز سے بند کر دیا گیا ۔صرف مقرر ہ میدان خالی چھوڑ دیا گیا ،صبح نام پیش ہو ئے اور جنرل عاصم منیر کو چیف آف آرمی اسٹاف جبکہ جنرل ساحر شمشاد کوجوائنٹ چیفس آف اسٹاف مقرر کر کےسمری صدر علوی صاحب کو بھجوادی اور صدر نے سمری پر دستخط کر دئیے ۔خیر اسلوبی سے یہ مسئلہ طےہو ا ،بھونچال ختم ہو گیا ۔اب ان تمام سیاستدانوں کو مل کر معیشت کی گرتی ہوئی دیوار کو روکنا چاہئے تھا مگر عمران خان نے اپنی تقریر کے آخر میں صوبائی اسمبلیاں جہاں پی ٹی آئی کی حکومتیں ہیں توڑنے کا بے وجہ شوشہ چھوڑ کر آبیل مجھے مار والا محاورہ دہرادیا ۔اب کیا تھا پی پی پی کے بلاول بھٹو نے عمران خان کو لتاڑا ،مولانا فضل الرحمان نے خاموشی توڑی اور کہنے لگے کہ عمران خان نے قوم کے نوجوانوں اور خواتین کو بگاڑ کر پاکستان کے مستقبل کو تاریک کردیا ۔آصف علی زرداری نے قصدِ لاہور کیا تا کہ آخری معرکہ سرکیا جائے ۔ ہماری وزیر اطلاعات مریم اورنگریب کیسے خاموش رہ سکتی تھیں وہ بھی میدان میں اتر آئیں ،وزیر داخلہ بھی دھاڑتے ہوئے میدان میں اترے کہ اب ہم پنجاب میں گورنر راج لائیں گے ،اسمبلی میں عدم اعتماد بھی ساتھ ساتھ آئے گی ۔اب پنجاب میدان کارزار بننے جا رہا ہے ۔چوہدری برادران تقسیم ہو چکے ہیں ،مونس الٰہی اور چو ہدری پرویز الٰہی عمران خان کے ساتھ ڈٹے ہو ئے ہیں، آنے والے دنوں میں ان معرکوں میں کیا ہو گا ۔میں چیف آف آرمی اسٹاف محترم جناب عاصم منیر صاحب سے دست بستہ درخواست کرتا ہوں کہ سیز فائر کروا کے سب کو ون پوائنٹ ایجنڈا پر بٹھا ئیں پہلے معیشت کا حل نکالیں پھرسیاست کریں ۔حالات بتاتے ہیں وزیر خزانہ قوم کو اندھیرے میں رکھے ہوئے ہیں کہ ہم ڈالر کو 200روپے سے نیچے لے جائیں گے ،ڈیفالٹ کا خطرہ ختم ہو گیا ہے،ہم نے آئی ایم ایف سے معاملہ طے کر لیا ہے وغیر ہ وغیرہ ۔مگر اسٹیٹ بینک نے وزیر خزانہ کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے تمام بینکوں کو نئی ایل سی کھولنے سے منع کر دیا ہے جس میں سب سے خطرناک الا رم پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچر ایسوسی ایشن (PPMA)نے یہ کہہ کر بجا دیا ہے کہ ا س کے ممبران کے پاس صرف 15سے 30دن کاخام مال رہ گیا ہے اور ڈالر 250روپے میں بھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے ۔ کل پیناڈول مارکیٹ میں شارٹ تھی اور آج جان بچانے والے بہت سے کیمیکل جو پاکستان میں نہیں بنتے ،ختم ہو رہے ہیں اگر ایل سی نہیں کھولی تو ادویات کی قلت پیدا ہوجائے گی ۔اگر چہ وزیر اعظم نے قیمتیں بڑھانے کے لئے کمیٹی بنانے کی ہدایت دی ہے مگر ایل سی کیلئے بینک خاموش ہے ،یہی حال تمام دیگر صنعتوں کا ہے ۔امپورٹرز کا اربوں روپے کا مال پورٹ پر پڑا ہے ۔مگر بینک غیر ملکی بینکوں کو رقمیں نہیں ادا کر رہے ہیں ۔ ہمارے ایکسپورٹرڈار صاحب والے220ڈالر کے فارمولے کی وجہ سے اپنا پیسہ پاکستان نہیں لا رہے ہیں بینک ان کے بیرونی بینک کے بل ادا کرنے سے قاصر ہیں ۔عمران خان کے جاتے ہی ہر طرف ڈالر کا شور مچا تو ڈالر مارکیٹ سے غائب ہو گیا ۔عوام خاموش تماشائی بن چکے ہیں گزشتہ 75سال سے یہی کچھ ہوتا آرہا ہے عوام تمام سیاستدانوں کو دیکھ چکے ہیں لہٰذا عوام کو اب فیصلہ کرنا ہو گا۔کل ہمارے سابقہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل فرمارہے تھے ہم 75سال بعد بھی قوم کو صاف پینے کا پانی ،بجلی ،گیس اور بھوک سے نجات نہیں دلا سکے ۔سری لنکا کے عوام جب سڑکوں پر نکلے تب ان کے حکمران بھاگے ، کیاہمارےحکمران بھی سری لنکا کے عوام کے عمل پر ہی جاگیں گے؟