سر رہ گزر

December 04, 2022

پگڑی اچھال صحافت!

جو لوگ صحافت کو اپنا کاروبار نہیں خالص صحافت گردانتے ہیں اور ان کو برا بھلا کہتے ہیں جو اس ملک میں صحافت کا پودا لگانے والوں میں سے ہیں، وہ شاید اپنی اصل وجہ شہرت بھول گئے ہیں، جنگ جیو نے صحافت کی مشکلات برداشت کرتے ہوئے اپنے سب سے بڑے میڈیا ہائوس ہونے کی حیثیت برقرار کھی ہوئی ہے، وہ زیب داستان خبروں کے انبار نہیں لگاتا، نہ ہی سرعام کسی کی پگڑی اچھالتا اور بندر کی طرح ناریل پر جھپٹتا ہے کہ شاید کوئی ناریل کا درخت ان کے ہاتھ لگ گیا ہے جس کے ناریل میں پانی نہیں، آج تک جنگ جیو گروپ کی جانب سے ان کے ساتھ ان جیسا رویہ روا نہیں رکھا گیا پھر یہ خواہ مخواہ کے ہتک عزت پر مبنی کلپس بار بار چلانے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا انہوں نے کسی نام نہاد آقا سے ٹھیکہ طے کر لیا ہے ؟ ہر اخبار ہر چینل کی اپنی پالیسی ہوتی ہے مگر یہ جو ایک گول مول چینل نے کردار کشی کا سلسلہ چلا رکھا ہے اسے بند کرے اور صحافت کے نام پر اپنے کاروبار کو اور نہ چمکائے، یہ ملمع بھی ایک دن اتر جائے گا، معتبر اورثقہ خبر کڑوی ہوتی ہےاور خوشامد کے لفافوں میں لپٹی خبریں بہت چٹ پٹی ہوتی ہیں، اگر صحافتی اداروں میں ایک جعلساز سجنا کے یہ لچھن جاری رہے تو اپنے ہی دامن پر لگے داغوں کو نمایاں کرنے کی دوسروں کو دعوت دے گا۔ براہ کرم یا ازراہ ستم یہ طرزعمل ملک کے ایک سب سے بڑے صحافتی ادارے کو بدنام کرنے کا ترک کر دیا جائے تو اچھا ہو گا، ورنہ تو ہم تو اسے کچھ نہیں کہیں گے، اپنا ناٹک کسی نوزائیدہ کی پرورش کیلئے جاری رکھے۔

٭٭٭٭

یہ ہم سب کا پاکستان ہے

یہ ہمارا مغالطہ ہے یا حقیقت کہ سیاست کی برفیلی زمین کچھ کچھ پگھلنے لگی ہے اور کوئی ایک آدھ پگڈنڈی ظاہر ہو رہی ہے، خدا ہماری اس خوش فہمی کو فہم آشنا کرے کہ اسی میں ہم سب کے عزیز پاکستان کی ہر بھلائی کا راز پوشیدہ ہے، اختلاف تو اچھی بات ہے بشرطیکہ یہ بات کسی کے ناموس تک نہ پہنچے، ایک دوسرے کو رسوا کرنے سے ملک، دنیا بھر میں رسوا ہو گا اور پھر ہم یہ نہیں کہہ سکیں گے؎

تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے

اس پہ دل قربان اس پہ جان بھی قربان ہے

آخر سب کو کیا ہو گیا ہے کہ دہی جمنے ہی نہیں دیتے، کیا ہم موت اور حقیقی یوم احتساب کو بھلا بیٹھے ہیں؎

رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

غالب کی کھری کھری باتوں کا واسطہ ہے کہ خود پر قابو رکھیں، مل جل کر اپنے گھر میں کھائیں، وطن میں ہر ڈش موجود ہے، بے معنی، بے لگام باہمی لڑائیوں کو کیوں سیاست سمجھ بیٹھے، جس سیاست سے خوشحالی نہ آئے اسے اٹھا کر پھینک دوباہر گلی میں ،کہ اس کی آڑ میں غیر سیاسی جن ناچ رہا ہے، کیا ہم بھول گئے کہ فخر کائنات نے ہم سے کہا تھا’’تم سب کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر ہو ‘‘سب ضد اور انا پرستی چھوڑ کر ہر ہم وطن کو دکھ درد سے آزاد کر دیں، میڈیا آج کا منہ بولتا رہنما ہے بس اس کا جائز استعمال درکار ہے، بھڑکتے شعلوں پر پانی ڈالیں، تیل نہ ڈالیں، شاید اسی لئے ہمارے ہاں تیل کا قحط 12مہینے جاری رہتا ہے، ایک میڈیا ہی نہیں ہر پاکستانی امن، اتحاد اور عدم استحصال کی بات کرےتو شاید بات بن جائے۔

٭٭٭٭

وہ جو گزر گئے

جب ہم سب کا ایمان ہے کہ ہر شخص کو ایک مقررہ وقت پر گزر جانا ہے، تو صبر کریں، آگے دیکھیں بلکہ خود کو دیکھیں کہ کہیں یہ معاملہ تو نہیں کہ ’’پڑی اپنے عیبوں پر جو نظر تو نظر میں کوئی برا نہ رہا‘‘ ہم سب کسی کام سے آئے ہیں، دیکھیں کہ کام کر کے گزر گئے یا بیٹھے گپ شپ لگائی اور کھا پی کر اٹھ گئے، انسانی زندگی مقصدیت سے عبارت ہے ورنہ زندگی تو جانور بھی جگالی کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔ اگر خالق عظیم نے ہمیں اشرف المخلوقات پیدا کیا تو کیوں اسفل السافلین کا رخ کرتے ہیں وہ بھی ذوق شوق سے ، اگر واقعتاً مسلمان ہیں تو اسلام تو محض اعتدال ہے، پھر یہ رویوں میں انتہا پسندی کیوں؟ ابتدا ہی سے لوگ آتے ہیں چلے جاتے ہیں، وقت تو امر ہے اور اپنی جگہ قائم جب کہ ہم اس کے سامنے سے گز ر جاتے ہیں، بے شمار آئے چلے گئے اور جانے والوں کا سفر دوسرے جہانوں میں جاری ہے، ہاں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ گزر کر بھی نہیں گزرتے، ہم آج بھی ان کے اقوال و افعال کو دہراتے ہیں ،یہ الگ بات کہ شاذ و نادر ہی ہم میں سے کوئی ان کی باتوں پر عمل کرے، جب تک عمل اور نیت ہم آہنگ نہ ہوں کوئی عمل مقبول نہیں، ظفر علی خان جیسے صحافی بھی گزر گئے مگر یادیں چھوڑ گئے، یہ آنا جانا لگا رہتا ہے ہمیں کسی کو اپنے لئے ناگزیر نہیں سمجھنا چاہئےاور آخر میں ایک بدو کا شعر جو اس نے اپنی محبوبہ کی قبر پر انگلیوں سے لکھا؎

من شاء بعد کِ فلیمت

فعلیکِ کنت احاذر

(اب ترے بعد جس کا جی چاہے مر جائے مجھے تو تیرا ہی ڈر تھا)

٭٭٭٭

دو دونی چار

الیکشن آخر ہوہی جائیں گے، ایسی بھی کیا جلدی خان صاحب ،کیا اپنی مقبولیت کے نہ رہنے کا ڈر ہے؟ اچھا ہے کہ وہ ہی ساتھ دیں، جو دیر سویر سے متاثر نہیں ہوتے۔

مریم اورنگزیب ایک ایسی ترجمان ہیں کہ موقع محل کے مطابق منہ توڑ جواب اور دل جوڑ مسکراہٹ میں کمال رکھتی ہیں۔

مفتاح اور ڈار کے درمیان نوک جھونک طبلے اور ستار کی نوک جھونک ہے۔ اس طرح دھن مکمل ہوتی ہےجو سیاسی موسیقی نہیں جانتے وہ اس پر بھی بغلیں بجاتے ہیں کیونکہ نہ وہ طبلہ بجا سکتے ہیں نہ ستار۔

عمران کا بڑا یوٹرن ’’ساتھ بیٹھیں، انتخابات کی تاریخ دیں ورنہ اسمبلیاں توڑ دیں گے‘‘

خدا کرے کہ اسمبلیاں توڑنے کو خان صاحب کیش کرانے میں کامیاب ہوں اور کیا کہہ سکتے ہیں۔

٭٭٭٭