حرمت ِسود سیمینار اور کچھ سوالات

December 06, 2022

پاکستانی نظام معیشت کو سود سے پاک کرنے کی کوشش عرصہ دراز سے جاری ہے۔یہ آئینی تقاضا پورا کرنے کیلئے پاکستان کی تمام عدالتوں نے سود کے خلاف واضح فیصلے تحریر کئےلیکن بوجوہ سود کا متبادل نظام، ملکی معیشت میں رائج نہ کیا جا سکا۔مایوسی کی سرنگ کے آخری کونے پر روشنی کی کرن تب نظر آئی جب اپریل 2022 ءمیں وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف ایک مرتبہ پھر واضح، مدلل اور دوٹوک فیصلہ جاری کیالیکن حکومت نے اسٹیٹ بینک اور مختلف بینکوں کے ذریعے 13مختلف اپیلیں وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں دائر کردیں جس کے خلاف راقم نے انہی صفحات میں مضامین کی ایک قسط وار سیریز تحریر کی اور دینی طبقے کی تشویش کو بیان کیا۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے منصب سنبھالنے کے فوراً بعد اس فیصلے کے خلاف دائر کی گئی تمام اپیلیں واپس لینے کا اعلان کیا جس کا پورے ملک میں وسیع پیمانے پر خیرمقدم کیا گیا۔اس پس منظر میں گزشتہ دنوں کراچی میں ’’حرمت سودسیمینار ‘‘کے نام سے ایک علمی مجلس کا انعقاد کیا گیا۔جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء، ماہرین ِمعیشت، اور حکومتی ذمہ داران نے شرکت کی۔اس موضوع پر متعدد مضامین تحریر کرنے کی وجہ سے الکرم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ کے چانسلر اور سابق وفاقی وزیر برادر مکرم حضرت پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب نے اپنے ہمراہ مجھے بھی اس مجلس میں شریک کیا ۔حاضری کے اعتبار سے بلاشبہ یہ ایک بھرپور مجلس تھی لیکن خیالات کے اظہار کیلئے بہت محدود وقت متعین کیا گیا۔اس کے باوجود یہ بہت عمدہ کاوش تھی جس پر دارالعلوم کراچی کے سربراہ علامہ مفتی تقی عثمانی اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔حرمت ِسود سیمینار میں سوال و جواب کا سیشن نہ تھا اس لئےبہت سے امور پر استفسارات نہ کئے جا سکے۔تاہم اگر سوال و جواب کا سیشن رکھا جاتا تو میرا پہلا سوال یہ ہوتا کہ اسلامی بینکنگ اور روایتی بینکنگ میں کار فنانسنگ یا ہاؤس فنانسنگ کی بنیادی شرح منافع کراچی انٹر بینک افورڈ ریٹ(کائبور)کی بنیاد پر طے کی جاتی ہے۔یوں اسلامی بینک کا شرح منافع اور روایتی بینکوں کی شرح سود معمولی فرق کے ساتھ ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ ایک ہی اصول کی بنیاد پر طے ہونے والی شرح سود کو منافع کا نام دے کر کیا اسے اسلامی کہا جا سکتا ہے؟اسلامی بینکنگ کیلئے جب تک شرح منافع طے کرنے کا الگ ادارہ تشکیل نہ دیا جائے یا اسلامی قوانین کی روشنی میں نئے اصول وضع نہ کئے جائیں تو منافع اور سود میں سوائے نام کے کیا فرق رہ جائے گا؟۔بلاسود بینکاری کے ذمہ داران سے میرا دوسرا سوال یہ ہوتا کہ اسلامی بینکنگ میں کار فنانسنگ،اجارہ کے اصول پر کی جاتی ہے۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ روایتی بینکوں کی جانب سے وصول کی جانے والی قسطوں کی رقم ،جس میں سود شامل ہوتا ہے، اس میں اور اجارہ کی رقم میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا۔روایتی بینکِنگ میں انشورنس کی رقم واضح طور پر کار کی قیمت میں شامل ہوتی ہے لیکن اسلامی بینکنگ میں انشورنس کی رقم دیگر اخراجات کی مد میں صارف کی جیب سے نکال لی جاتی ہے۔گویا کہ ایک طرف تو اسلامی بینک سے کار لینے والا شخص کار کا مالک بھی نہیں لیکن اس کے باوجود سارے اخراجات اس کے کھاتے میں ڈالے جا رہے ہیں۔مزید زیادتی یہ کہ صارف کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس کی انشورنس کی رقم مختلف اخراجات کی مد میں اس کے کھاتے سے کاٹی جا رہی ہے۔کیا اسلام کے نام پر بینکوں کو اس لوٹ مار کی اجازت ہونی چاہئے؟اس لوٹ مار سے صارفین کو بچانے کیلئے کیا مکنیزم اختیار کیا جانا چاہئے؟میرا تیسرا سوال یہ ہوتا کہ اسلام میں سود کو حرام قرار دینے کی ایک علت یہ بھی تھی کہ عام شخص کو معاشی ظلم،ساہوکاروں کے شکنجوں سے نجات دلائی جا سکے،لیکن پاکستان کے موجودہ اسلامک بینکنگ سسٹم میں وہ سارے لوازمات موجود ہیں جو ایک ساہوکار کے نظام کا حصہ ہوتے ہیں یا روایتی بینکاری کا لازمی جزو ہیں۔مثلا اگرروایتی بینک کا مقروض قرض کی ادائیگی میں دیر کرتا ہے اس پر جرمانہ سود کی شکل میں لاگو ہوتا ہے اور مروجہ اسلامی بینک کا مقروض اگر ادائیگی میں تاخیر کرتا ہے تو اس کا جرمانہ بھی روایتی بینک کی شرح سے فلاحی ٹیکس کے نام پر لاگو ہوتا ہے۔ نام کی تبدیلی کے سوا عام مسلمان کو کہاں ریلیف ملا؟اس نوعیت کے متعدد سوالات ،جواب طلب ہیں۔میری دانست میں اس وقت کی موجودہ اسلامی بینکاری، سودی بینکاری کا چربہ ہے۔ہمارے دونوں بزرگ مفتی منیب الرحمن اور مفتی تقی عثمانی کہیں ان اقدامات کو سند جواز تو نہیں بخش رہے،ورنہ عام آدمی سود کی چکی میں پس رہا ہے یا پھر فلاحی ٹیکس کے نام پرذبح کیا جا رہا ہے۔اسلامی بینکاری پر جو علماء اپنی مہر تصدیق ثبت کر رہے ہیں ان کا علمی پس منظر اسلامی فقہ اور اس کی جزئیات کے علم پر مبنی ہے جدید علم معاشیات میں انہیں وہ مہارت حاصل نہیں جس طرح ایک ماہر معاشیات کو حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح جدید بینکاری نظام سے منسلک افراد اسلامی فقہ سے نابلد ہیں اور ان دونوں گروہوں کے خیالات میں بعد المشرقین ہے۔جس سے عام صارف کا مسلسل استحصال ہورہا ہے۔اب یہ گیند وزارت خزانہ کے کورٹ میں ہے کہ وہ اپنی سطح پر وسیع مشاورت کا اہتمام کرے۔عام آدمی جو پہلے سود کے نام پر لٹ چکاہے اسے اسلامی بینکنگ کے نام پر لٹنے سے بچایا جائے۔شریعہ بورڈ بینکوں کے ماتحت ہونے کے بجائے حکومت کے ماتحت ہوں اور اس میں اسلامی نظام معیشت کے ماہرین اور جدید ماہرین اقتصادیات شامل ہوں وزارت مذہبی امور اور وزارت خزانہ مل کر ٹھوس اقدامات کریں تاکہ کم ازکم اسلام کے نام پر تو استحصال بند کیا جائے۔

خراج تحسین

سیلاب زدگان کی مشکلات کو ختم کرنے کیلئے عالمی فلاحی تنظیم مسلم ہینڈز اب بھی ان کی خدمت میں مصروف عمل ہے جبکہ حکومت ان سے غافل ہے۔ مسلم ہینڈز جیسی تنظیمیں خراج تحسین کی مستحق ہیں جو اب بھی اس کار خیر میں مصروف ہیں۔اس تنظیم نے اب کراچی میں بھی اپنا دفتر قائم کیا ہے۔جس شہر میں ایدھی،چھیپا اور المصطفیٰ جیسی فعال جماعتیں خدمت خلق میں مصروف ہیں وہاں مسلم ہینڈز ایک اچھا اضافہ ثابت ہوگی۔ ان شاء اللہ