قرض وبالِ جان!

December 07, 2022

سیلاب گزیدہ معیشت کا شکار پاکستان کیلئے بیرونی قرضوں کی ادائیگی روز بروز درد سر بنتی جارہی ہے۔پاکستان کے بڑے بروکریج ہاؤس ٹاپ لائن سیکیورٹیز کی جانب سے پاکستان کی معاشی صورتحال کے حوالے سے مرتب کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا بڑا معاشی مسئلہ تجارتی اور جاری کھاتہ خسارہ نہیں بلکہ آئندہ برسوں میں واجب الادا قرضوں کی واپسی ہے۔ رپورٹ کے مطابق معاشی بحران کی شدت اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ صفر بھی ہوجائے تب بھی پاکستان قرض اداکرنے کی پوزیشن میں نہیں آسکتا کیونکہ ملک میں کثیر الجہتی اور دوطرفہ قرضوں میں اضافہ ہوا ہے، بیرونی قرضوں میں سے 42فیصد کثیر الجہتی قرضے ہیں، یہ کثیر الجہتی قرضے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو ادا کرنے لازمی ہیں، اس کے علاوہ دوطرفہ قرضوں کا حصہ تقریبا 38فیصد ہے۔رواں مالی سال 23-2022میں پاکستان کو 32سے 34ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنا ہے۔ گزشتہ سال کے 31 ارب ڈالر کے مقابلے 2022 میں 29ارب ڈالر کی ترسیلات ہوں گی۔ترسیلات زر میں کمی کی وجہ سے پاکستان کو زرمبادلہ کے مسائل درپیش رہیں گے جس سے بیرونی ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا ہو گا۔ اس تناظر میں پاکستان نے قرض خواہ ممالک اور عالمی اداروں سے قرضے رول اوور کرنے کی استدعا کی ہے ۔ خیال رہے کہ پاکستان کو آئندہ 3برسوں میں یعنی مالی سال 2023تا 2025 کے دوران 73ارب ڈالر قرض واپس کرنا ہے۔ان واجب الادا قرضوں کی واپسی کیلئے سعودی عرب کی طرح چین سے بھی قرضوں کی واپسی ری شیڈول کرانے کے ساتھ ساتھ پیرس کلب سمیت دیگرعالمی قرضوں کی واپسی میں مہلت کیلئے کوشش کرنا پڑیگی۔واضح رہے کہ وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان کو 2022 سے 2059 تک مجموعی طور پر 95.4 ارب ڈالر قرضہ واپس کرنا ہوگا۔